کتاب: وسیلہ کی شرعی حیثیت - صفحہ 113
’’بغیر وسیلہ پیغمبر، رب تک پہنچنے کی خواہش کرنا کفار کا کام ہے۔ جب رب ہم تک بغیر وسیلہ نبی نہیں پہنچتا ،حالانکہ وہ غنی ہے تو ہم اس تک بغیر وسیلہ کیسے پہنچیں ،حالانکہ ہم محتاج ہیں ۔‘‘(تفسیر نور العرفان، ص 27) مفتی صاحب کا کوئی معتقد ہی بتائے کہ قرآنِ کریم کی اس آیت سے وہ کون سا وسیلہ ثابت کرنا چاہتے ہیں ؟ بات ہورہی ہے دُعا میں کسی کی ذات کا وسیلہ دینے کی، جہاں تک دین اور شریعت کا تعلق ہے، تو وہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنے نبی ہی کے ذریعہ دیا ہے، لیکن اسی شریعت میں ہماری ساری عبادات کے مفصل طریقے بیان کر دئیے ہیں ۔ دُعا ایک عبادت بلکہ عبادات کا مغز ہے۔کیا قرآن و سنت سے دُعا والی عبادت میں کسی کی ذات کے وسیلے کا ثبوت ملتا ہے؟ اگر دُعا میں کسی کی ذات کو بطور وسیلہ ذکر کرنے کا اسلام میں کہیں نام و نشان ملتا ہوتا تو مفتی صاحب کو اتنا تکلف نہ کرنا پڑتا۔اسلاف ِامت صحابہ وتابعین اور ائمہ دین میں سے کسی نے اس آیت سے وسیلہ بالذات کا استنباط نہیں کیا، نہ اسلاف میں سے کوئی اس کا قائل رہا۔ حیرانی تو اس پر ہے کہ جو لوگ قرآن و سنت کے مطلب و مفہوم کو سمجھ نہ پانے کا بہانہ کر کے اتباعِ رسول چھوڑ دیتے ہیں اور تقلید شخصی کا نظریہ اپنا لیتے ہیں ، وہی لوگ مجتہد بن کر اپنی خرافات ثابت کرنے کے لیے قرآن وسنت کے نئے نئے مفاہیم کا استنباط کرتے ہیں ! اسی بے اصولی نے مفتی صاحب کے رویے میں تشددپیدا کردیا ہے، انہی کی ایک اور عبارت ملاحظہ فرمائیں ۔ لکھتے ہیں : ’’معلوم ہوا کہ نبی کے توسل کا فرعون بھی قائل تھا۔جو اس وسیلہ کا منکر ہے، وہ فرعون سے زیادہ گمراہ ہے۔‘‘(تفسیر نور العرفان، ص 264)