کتاب: وسیلہ کی شرعی حیثیت - صفحہ 111
ہیں ، جن کی طرف ان کی کوئی نسبت ہے، چنانچہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی نہ کی، پھر وہ اپنے ضروری اعتقادات کو تسلیم کرنے سے بھی انکاری ہو گئے۔ تصوف اور فقہ کے کسی معین گروہ یا دینی حوالے سے کسی قابل تعظیم امتی کی طرف منسوب ہونے والے بہت سے لوگ اسی مصیبت کا شکار ہیں ۔ وہ دینی معاملے میں وہی رائے اور روایت قبول کرتے ہیں ، جو ان کے گروہ کی طرف سے آئے، حالانکہ انہیں یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ ان کے گروہ کی دلیل کیا ہے۔ اس کے برعکس دین اسلام حق کی مطلق اتباع فرض قرار دیتا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی بھی معین شخص یا گروہ کی رائے یا روایت کو اتباع کے لیے خاص نہیں کرتا۔‘‘ (اقتضاء الصّراط المستقیم : 1/88-87) فائدہ : عاصم بن عمر بن قتادہ انصاری مدنی تابعی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں : حَدَّثَنِي أَشْیَاخٌ مِّنَّا، قَالُوا : لَمْ یَکُنْ أَحَدٌ مِّنَ الْعَرَبِ أَعْلَمَ بِشَاْنِ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنَّا، کَانَ مَعَنَا یَہُودُ، وَکَانُوا أَہْلَ کِتَابٍ، وَکُنَّا أَصْحَابَ وَثَنٍ، فَکُنَّا إِذَا بَلَغَنَا مِنْہُمْ مَّا یَکْرَہُونَ، قَالُوا : إِنَّ نَبِیًّا مَّبْعُوثًا الْـآنَ، قَدْ أَظَلَّ زَمَانُہٗ، نَتَّبِعُہٗ، فَنَقْتُلُکُمْ مَّعَہٗ قَتْلَ عَادٍ وَّإِرَمَ، فَلَمَّا بَعَثَ اللّٰہُ رَسُولَہُ اتَّبَعْنَاہُ وَکَفَرُوا بِہٖ، فَفِینَا، وَاللّٰہِ، وَفِیہِمْ