کتاب: وسیلہ کی شرعی حیثیت - صفحہ 110
مرتکب ہوئے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کی کتاب کے بارے میں انہوں نے وہ بات کہہ دی ہے جو سلف میں سے کسی نے نہیں کہی۔ اصل بیان یہ تھا کہ اہل کتاب یہود ی دو قبیلوں اوس اور خزرج سے لڑتے تھے،اوس اور خزرج اہل کتاب نہیں تھے،یہود کے علم میں تھا کہ عنقریب خاتم النبیین نبی مبعوث ہونے والے ہیں ۔ غلبہ اس نبی کا مقدر ہو گا۔اس بنا پر یہودی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرفداری ظاہر کرتے ہوئے کہتے کہ ہم اس نبی پر ایمان لائیں گے، اس کی پیروی کریں گے اور اس کی معیت میں مشرکین سے لڑائی کر کے ان پر غلبہ پائیں گے۔لہٰذا ہمیں ان مشرکوں ،یعنی اوس اور خزرج پر غلبہ اور فتح عطا کی جائے گی۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے اور قرآنِ کریم نازل ہوا تو یہودی اپنی بات سے پھر گئے اورانہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کفر کیا ۔یوں ان پر پھٹکار پڑی اور وہ کافر بنے۔مفتی صاحب نے یہاں سے مسئلہ وسیلہ کشید کر لیا ہے، حالاں کہ کسی صحابی کسی تابعی یا کسی ثقہ امام سے اس آیت کریمہ سے ایسا استنباط ثابت نہیں ۔مفتی صاحب کی بات غلط ہو نے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ صحابہ کرام اور ائمہ عظام میں سے کوئی بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کے وسیلے کا قائل نہیں تھا۔درحقیقت اسلافِ ِامت ہی قرآن و حدیث کے مطالب و مفاہیم سے بخوبی واقف تھے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ( 728ھ)نے کیا خوب لکھا ہے: ’’اللہ نے یہود کے متعلق فرمایا ہے کہ وہ حق کو اس وقت سے پہچانتے تھے۔ جب ابھی تک ناطق حق اور داعی حق پیدا ہی نہیں ہوا تھا۔ جب ان کے پاس حق کا داعی ایسے گروہ سے آ گیا، جسے وہ حقیر وفقیر جانتے اور اس کا کہا نہیں مانتے تھے، درحقیقت وہ حق انہی گروہوں سے قبول کرتے