کتاب: وسیلہ کی شرعی حیثیت - صفحہ 11
اس سلسلہ میں بہت سی احادیث بیان ہوئی ہیں ۔ ایک نابینا صحابی رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے حق میں دعا کرائی تھی۔
(سنن التّرمذي : 3578، وسندہٗ حسنٌ)
٭عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ سے دعا کرائی۔(صحیح البخاري : 1010)
قرآن و سنت سے وسیلے کی مذکورہ تین اقسام ہی ثابت ہیں ۔اہل سنت کا انہی پر عمل ہے اور مسلمانوں کو انہی پر اکتفا کرنا چاہیے۔
وسیلے کی ناجائز صورتیں :
وسیلہ کی ان تین اقسام کے علاوہ تمام اقسام غیر مشروع ،ناجائز اور بدعت ہیں ۔ مثلا؛ حاضر ، غائب ، زندہ یا مردہ کی ذات کا وسیلہ پیش کیا جائے یا صاحب ِ قبر سے کہا جائے کہ میرے حق میں دعا اور سفارش کریں ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات ِ طیبہ میں یا وفات کے بعد کسی صحابی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کو وسیلہ نہیں بنایا ، سلف صالحین اور ائمہ محدثین سے بھی یہ وسیلہ ثابت نہیں ،چند گزارشات ملاحظہ ہوں :
1.وسیلے کی یہ صورتیں بدعت ہیں ، قرآن وحدیث میں ان کا ثبوت نہیں اور صحابہ کرام ،اسلاف امت کا ان پر عمل نہیں ۔
نبی اکر م صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
مَنْ عَمِلَ عَمَلًا، لَیْسَ عَلَیْہِ أَمْرُنَا، فَھُوَ رَدٌّ ۔
’’جس نے ایسا کام ایجاد کیا، جس پر ہمارا امر نہیں ، وہ مردود ہے۔‘‘
(صحیح مسلم : 1877)
سیدناعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں :