کتاب: وسیلہ کی شرعی حیثیت - صفحہ 109
درست ہے، وہ مشروع توسل ہے۔متاخرین میں سے بھی بعض نے اگر اپنے توسل میں کہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کیا ہے تو اس سے مراد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات نہیں بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت و اطاعت ہے ، جو کہ نیک عمل ہے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ( 728ھ)فرماتے ہیں : أَسْئَلُکَ بِنَبِیِّکَ مُحَمَّدٍ، أَیْ أَسْأَلُکَ بِإِیمَانِي بِہٖ وَمَحَبَّتِہٖ ۔ ’’یااللہ! میں تجھے تیرے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم ، یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا واسطہ دے کرسوال کرتا ہوں ۔‘‘ (قاعدۃ جلیلۃ في التوسّل والوسیلۃ، ص 38) سلف کا توسل ، توسل بالاموات نہیں ، بلکہ توسل بالاعمال الصالحہ تھا۔ بریلوی حضرات اور ممنوع توسل : جناب احمدیار خان نعیمی بریلوی صاحب (1391ھ) سورت بقرہ، آیت نمبر 89 کے تحت لکھتے ہیں : ’’معلوم ہوا کہ حضور کے توسل سے دعائیں مانگنا بڑی پرانی سنت ہے اور ان کے وسیلے کا منکر یہود ونصاریٰ سے بدتر ہے۔ اور حضور کے وسیلے سے پہلے ہی سے خلق کی حاجت روائی ہوتی تھی۔‘‘ (تفسیر نور العرفان، ص 21) اس آیت کریمہ کی تفسیر میں مفتی صاحب خود اہل کتاب کی رَوَش پر چل نکلے ہیں اور اپنے باطل اور فاسد نظریات کے دفاع میں قرآن مجید میں تحریف ِمعنوی کے