کتاب: وسیلہ کی شرعی حیثیت - صفحہ 107
حقیقت میں مدد مانگنی بالکل ناجائز ہے۔ ہاں ! اگر مقبول بندے کو محض واسطہ رحمت ِالٰہی اور غیر مستقل سمجھ کر استعانت ظاہری اس سے کی جائے، تو یہ جائز ہے کہ یہ استعانت درحقیقت اللہ تعالیٰ سے ہی استعانت ہے۔‘‘
(تفسیر عثمانی، ص 21)
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ(728ھ)فرماتے ہیں :
ہُوَ ظَنَّ أَنَّ الْبَابَ فِي التَّوَسُّلِ کَالْبَابِ فِي الِْاسْتِغَاثَۃِ، وَلَیْسَ کَذٰلِکَ، فَإِنَّہٗ یُقَالُ : اسْتَغَاثَہٗ وَاسْتَغَاثَ بِہٖ، کَمَا یُقَالُ : إِنَّہُ اسْتَعَانَہٗ وَاسْتَعَانَ بِہٖ، فَالْمُسْتَغَاثُ بِہٖ ہُوَ الْمَسْؤُوْلُ، وَأَمَّا الْمُتَوَسِّلُ بِہٖ، فَہُوَ الَّذِي یَتَسَبَّبُ بِہٖ إِلَی الْمَسْؤُوْلِ ۔
’’انہوں نے توسل اور استغاثہ کوایک سمجھ لیا ہے، حالانکہ یہ ایک نہیں ہیں ، ایک ہے کسی سے مدد طلب کرنا،یہ استغاثہ کہلاتا ہے، ایک ہے کسی کو مدد طلب کرنے کا سبب بنانا،یہ توسل کہلاتا ہے، جس سے مدد طلب کی جا رہی ہے، وہ مستغاث (جس سے مدد مانگی جائے) ہے اورجس کا وسیلہ پیش کیا جائے وہ متوسل (جس کے ذریعے مدد مانگی جائے) ہے۔
(تلخیص کتاب الاستغاثۃ، ص 261۔262)
مولاناحسین احمد مدنی دیوبندی صاحب (1377ھ)لکھتے ہیں :
’’یہ مقدس اکابر ہمیشہ اولیائے کرام و انبیائے عظام سے توسل کرتے رہتے ہیں اور اپنے مخلصین کو اس کی ہدایت کرتے رہتے ہیں ، جس کو وہابیہ