کتاب: وسیلہ کی شرعی حیثیت - صفحہ 105
کے خلاف تھا، ان کے بارے میں ہے:
’’اگر اکیلے کسی مزار پر جاتے اور دوسرا شخص وہاں موجود نہ ہوتا، تو آواز سے عرض کرتے کہ آپ میرے واسطے دُعا کریں ۔‘‘(سوانح قاسمی : 2/29)
جناب اشرف علی تھانوی دیوبندی صاحب (1362ھ)لکھتے ہیں :
’’عادتاً توسل اہل طریق میں مقبولانِ الٰہی کے توسل سے دعا کرنا بکثرت شائع ہے۔ حدیث سے اس کا اثبات ہوتا ہے اور شجرہ پڑھنا جو اہل سلسلہ کے یہاں معمول ہے ، اس کی یہی حقیقت اور غرض ہے۔‘‘
(التّکَشُّف، ص 446)
تھانوی صاحب کا یہ کہنا کہ حدیث سے اس کا اثبات ہوتا ہے، سراسر غلط ہے۔ کسی صحیح حدیث سے وسیلے کی اس قسم کا اثبات نہیں ہوتا۔
سیدنا عثمان بن حُنَیف رضی اللہ عنہ سے مروی ایک روایت، جس کا تعلق دُعا اور سفارش سے ہے ، کے بارے میں جناب اشرف علی تھانوی دیوبندی صاحب لکھتے ہیں :
’’اس سے ثابت ہوا کہ جس طرح توسل کسی کی دُعا کا جائز ہے ، اسی طرح توسل دعا میں کسی کی ذات کا بھی جائز ہے۔‘‘(نشر الطیب، ص 38)
اگر اس حدیث سے ذات کا توسل ثابت ہوتا، تو محدثین اس کے قائل کیوں نہ ہوئے؟ اس کا مطلب تو یہ ہے کہ جو بات تھانوی صاحب کی سمجھ میں آ گئی، محدثین کرام اسے سمجھنے سے قاصر رہے۔ العیاذ باللہ!حالانکہ حدیث کے الفاظ بول بول کر تھانوی صاحب کا رد کر رہے ہیں ۔ کسی صحابی یا تابعی سے باسند صحیح کسی فوت شدہ انسان کا وسیلہ پکڑنا ثابت نہیں ۔اسی طرح کسی صحابی نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے