کتاب: وسیلہ کی شرعی حیثیت - صفحہ 104
واولیا و صدیقین کا توسل جائز ہے۔ ان کی حیات میں یا بعد وفات بایں طور کہے کہ یا اللہ!میں بوسیلہ فلاں بزرگ کے تجھ سے دعا کی قبولیت اور حاجت برائی چاہتا ہوں ، اسی جیسے کلمات اور کہے۔‘‘ (المہند علی المفند، ص 13-12) دیوبندی مفتی عزیر الرحمن صاحب (1347ھ)ایک فتویٰ میں لکھتے ہیں : ’’اس طرح دُعا مانگنا درست ہے کہ یا اللہ!ببرکت اپنے نیک بندوں کے میری حاجت پوری فرما! فقط۔‘‘ (فتاویٰ دار العلوم دیوبند : 5/431) نیز لکھتے ہیں : ’’ان بزرگوں سے یہ نہ کہے:تم دُعا کرو۔سماعِ موتی خود مختلف فیہ مسئلہ ہے۔ حنفیہ سماعِ موتی کا انکار کرتے ہیں اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا یہی مذہب اور آیات ِقرآنیہ اس پر دال ہیں ، لہٰذا اس طرح ان سے خطاب کر کے نہ کہے کہ تم دعا کرو، بلکہ خود اللہ تعالیٰ سے ان کے لیے دعائے مغفرت اور رفع درجات کی دعا کرے اور اگر ان کے ذریعہ سے اپنی حاجات کے پورا ہونے کے لیے بھی دُعا کرے، تو مضائقہ نہیں ۔‘‘ (فتاویٰ دار العلوم دیوبند : 5/442-441) غور فرمائیں کہ دیوبند کے مفتی جناب عزیر الرحمن فوت شدگان کے وسیلے سے دُعا کرنے کو جائز قرار دے رہے ہیں ، جبکہ فوت شدگان سے دُعا کرانے کو ناجائز کہتے ہیں ، لیکن دارالعلوم دیوبند کے بانی جناب قاسم نانوتوی صاحب (1297ھ)کا مؤقف اس