کتاب: وسیلہ کی شرعی حیثیت - صفحہ 10
’’ربّ کریم!ہم تیری وحی پر ایمان لائے اور تیرے رسول کی پیروی کی، ہمارا نام بھی تصدیق کرنے والوں میں شامل فرما۔‘‘
٭اللہ عقل مند وں کی نشانیاں بیان کرتا ہے:
﴿رَبَّنَآ إِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِیًا یُّنَادِي لِلْـإِیمَانِ أَنْ آمِنُوا بِرَبِّکُمْ فَآمَنَّا رَبَّنَا فَاغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وَکَفِّرْ عَنَّا سَیِّئَاتِنَا وَتَوَفَّنَا مَعَ الْـأَبْرَارِ﴾
(آل عمران : 193)
’’ہمارے ربّ!ہم نے ایک منادی کو کہتے ہوئے سنا کہ اپنے رب پر ایمان لے آئیے، تو ہم ایمان لے آئے، ربّ کریم! اسی طفیل ہمارے گناہ معاف فرما، ہم سے ہماری برائیاں دور کر اور ہمیں صالحین کے ساتھ موت نصیب فرما۔‘‘
معلوم ہوا کہ دُعا میں نیک اعمال کا وسیلہ مشروع ہے۔ نیک اور عقل مند لوگوں کا یہی وطیرہ ہے۔یہ جائز وسیلہ استعمال کرنا چاہیے۔
٭صحیح حدیث میں اصحاب ِغار کا قصہ وارد ہواہے ، ان اللہ والوں نے مصیبت میں نیک اعمال کا وسیلہ پیش کیا تھا اور ان کی پریشانی ختم ہوگئی تھی ۔
(صحیح البخاري : 5974، صحیح مسلم : 2743)
3.وسیلہ کی تیسری صورت یہ ہے کہ کسی زندہ ،صالح اور موحّد سے دعا کرائی جائے ، اس کی دلیل سورت نساء (64) میں ہے۔
٭صحابہ کرام رضی اللہ عنہم مصیبت اور پریشانی میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دُعا کرواتے تھے۔