کتاب: والدین کا احتساب - صفحہ 97
مسلمانوں کے ٹیکس سے جمع شدہ مال کو واپس حقداروں میں تقسیم کر دے، اس کی دیواروں میں کندہ اور اس کے گھر کی لکڑی میں کھودی ہوئی تصویروں کو ختم کر دے، اور سونے چاندی کے برتنوں کو توڑ دے۔ان اعمال کا باپ کی ذات کے ساتھ اس طرح براہِ راست تعلق نہیں، جیسا کہ پٹائی اور گالی گلوچ کا ہوتا ہے، لیکن پھر بھی باپ ان کاموں سے اذیت محسوس کرتا ہے، اور ان کی وجہ سے ناراض ہوتا ہے۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ بیٹے کا عمل برحق ہے، اور باپ کے غصے کے پس ِ منظر میں اس کی باطل اور ناجائز چیزوں سے محبت ہے۔قیاس سے یہی بات واضح ہے کہ بیٹے کو ایسا کرنے کا حق ہے، بلکہ ایسا کرنا اس پر لازم ہے۔‘‘ مذکورہ بالا عبارت کے بعد علامہ غزالی ؒ نے یہ بھی تحریر کیا ہے کہ باپ کے متعلق برائی کے ہاتھ سے ازالہ کرنے سے پیشتر بیٹا اپنی اس کاروائی کے متوقع نتائج پر غوروفکر کرے۔وہ لکھتے ہیں: ’’وَلاَ یَبْعُدُ أَنْ یَنْظُرَ فِیْہِ إِلٰی قُبْحِ الْمُنْکَرِ وَإِلٰی مِقْدَارِ الأَذَی وَالسَّخَطِ۔فَإِنْ کَانَ الْمُنْکَرُ فَاحِشاً وَسَخَطُہُ عَلَیْہِ قَرِیْبًا کَإِرَاقَۃِ خَمْرِ مَنْ لاَ یَشْتَدُّ غَضَبُہُ فَذٰلِکَ ظَاہِرٌ۔وَإِنْ کَانَ الْمُنْکَرُ قَرِیْباً وَالسَّخَطُ شَدِیْداً کَمَا لَوْ کَانَتْ لَہٗ آنِیَۃٌ مِنْ بَلوْرٍ أَوْ زُجَاجٍ عَلٰی صُوَرِ حَیْوَانٍ، وَفِي کَسْرِہَا خُسْرَانُ مَالٍ کَثِیْرٍ، فَہٰذَا مِمَّا یَشْتَدُّ فِیْہِ الْغَضَبُ، وَلَیْسَ تَجْرِي ہٰذِہِ الْمَعْصِیَۃُ مَجْرَي الْخَمْرِ وَغَیْرِہِ فَہٰذَا کُلُّہٗ مَجَالُ النَّظْرِ‘‘۔[1] ’’یہ بات کچھ بعید نہیں [بلکہ مناسب ہے] کہ وہ محلِ نظر برائی کی قباحت اور
[1] إحیاء علوم الدین ۲/۳۱۸۔