کتاب: والدین کا احتساب - صفحہ 96
انہوں نے لکھا ہے: ’’وَہَلْ لَہٗ (لِلْوَلَدِ) اَلْحِسْبَۃُ بِالرُّتْبَۃِ الثَّالِثَۃِ (تَغْیِیْرُ الْمُنْکَرِ بِالْیَدِ) حَیْثُ تُؤْدِّي إِلٰی أَذَی الْوَالِدِ وَسَخَطِہِ؟‘‘ [1] ’’کیا تیسرے درجہ [ہاتھ سے برائی کا خاتمہ کرنا] کے ذریعے اس [بیٹے] کو احتساب کا حق ہے، جو کہ باپ کی اذیت اور ناراضی کا سبب بنتا ہے ؟‘‘ سوال کا جواب دیتے ہوئے علامہ غزالی ؒ نے قلم بند کیا ہے: ’’ہٰذَا فِیْہِ نَظَرٌ، وَہُوَ بِأَنْ یَکْسِرَ مَثَلاً عُوْدَہٗ، وَیُرِیْقَ خَمْرَہُ، وَیَحِلَّ الْخَیُوْطَ عَنْ ثِیَابِہِ الْمَنْسُوْجَۃِ مِنَ الْحَرِیْرِ، وَیَرُدَّ إِلَی الْمَلاَکِ مَا یَجِدُہُ فِي بَیْتِہِ مِنَ الْمَالِ الْحَرَامِ الَّذِي غَصَبَہٗ أَوْ سَرَقَہٗ، أَوْ أَخَذَہٗ عَنْ إِدْرَارِ رِزْقٍ مِنْ ضَرِیْبَۃِ الْمُسْلِمِیْنَ إِذَا کَانَ صَاحِبُہٗ مُعَیَّنًا، وَیَبْطَلَ الصُّوْرَ الْمَنْقُوْشَۃَ عَلٰی حِیْطَانِہِ وَالْمَنْقُوْرَۃَ فِي خَشْبِ بَیْتِہِ، وَیَکْسِرَ أَوَانِي الذَّہَبِ وَالْفِضَّۃِ، فَإِنَّ فِعْلَہٗ فِي ہٰذِہِ الأُمُوْرِ لَیْسَ یَتَعَلَّقَ بِذَاتِ الأَبِ بِخَلاَفِ الضَّرْبِ وَالسَّبِ، وَلٰکِنَّ الْوَالِدَ یَتَأَذَّی بِہِ، وَیَسْخُطُ بِسَبَبِہِ، إِلاَّ أَنَّ فِعْلَ الْوَلَدِ حَقٌّ، وَسَخَطَ الأَبِ مَنْشَؤُہٗ حُبُّہٗ لِلْبَاطِلِ وَلِلْحَرَامِ، وَالأَظْہَرُ فِي الْقِیَاسِ أَنَّہٗ یَثْبُتُ لِلْوَلَدِ ذٰلِکَ، بَلْ یَلْزَمُہُ أَنْ یَفْعَل ذٰلِکَ۔‘‘[2] ’’یہ سوال غوروفکر کا تقاضا کرتا ہے۔اور اس کی شکل یہ ہے کہ وہ باپ کے ساز کی لکڑی توڑ دے، اس کی شراب انڈیل دے، اس کے ریشمی کپڑوں کے دھاگوں کو نکال پھینکے، باپ کے لوگوں کے غصب شدہ یا چوری کیے ہوئے مالِ حرام کو اصل مالکان کو واپس کر دے، سرکاری ملازم ہونے کی صورت میں
[1] إحیاء علوم الدین ۲/۳۱۸۔ [2] إحیاء علوم الدین ۲/۳۱۸۔