کتاب: والدین کا احتساب - صفحہ 86
اور ان کے سمجھنے دیکھنے کے انداز ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں، اسی لیے تو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا:
{اُدْعُ إِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَالْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ وَجَادِلْہُمْ بِالَّتِیْ ہِيَ أَحْسَنُ} [1]
[ترجمہ:اپنے رب کی راہ کی طرف حکمت اور بہترین نصیحت سے دعوت دیجیے، اور نہایت ہی عمدہ طریقے سے ان کے ساتھ مباحثہ کیجیے]
اور ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا:
{وَاغْلُظْ عَلَیْہِمْ} [2]
[ترجمہ:اور ان پر سختی کیجیے]
[خلاصۂِ گفتگو یہ ہے کہ] اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ابراہیم علیہ السلام کے اپنے باپ کے ساتھ ایک خاص قسم کے طرز عمل کا ذکر کیا ہے اور اس میں بھی حسن ِ سلوک کے منافی کوئی بات نہیں، کیونکہ گالی اور زیادتی کے بغیر اظہارِ حق میں حسن ِ سلوک کے متصادم کوئی بات نہیں ہوتی۔
سخت روی کی نفی کے متعلق قول:
شیخ محمد رشید رضا ؒ کی تحریر:
آیت ِ کریمہ کی تفسیر میں شیخ محمد رشید رضا ؒ نے مذکورہ بالا مفسرین کی رائے سے اختلاف کیا ہے۔انہوں نے تحریر کیا ہے:
’’وَالتَّعْبِیْرُ عَنْہَا بِالضَّلاَلِ لَیْسَ فِیْہِ سَبٌّ وَلاَ جَفَائٌ وَلاَ غِلْظَۃٌ، کَمَا زَعَمَ مَنِ اسْتَشْکَلَہٗ مِنَ الْوَلَدِ لِلْوَالِدِ، وَقَابَلَہُ بِأَمْرِ اللّٰہِ تَعَالٰی
[1] سورۃ النحل / جزء من الآیۃ ۱۲۵۔
[2] سورۃ التحریم / جزء من الآیۃ ۹۔