کتاب: والدین کا احتساب - صفحہ 85
فَلَمَّا رَأَی تَصْمِیْمَہُ عَلَی الْکُفْرِ سَلَکَ مَعَہُ الْغِلْظَۃَ اسْتِقْصَائً لِأَسَالِیْبِ الْمَوْعِظَۃِ لَعَلَّ بَعْضَہَا أَنْ یَکُوْنَ أَنْجَعَ فِي نَفْسِ أَبِیْہِ مِنْ بَعْضٍ، فَإِنَّ لِلنُّفُوْسِ مَسَالِکَ، وَلِمَجَالِ أَنْظَارِہَا مَیَادِیْنَ مُتَفَاوِتَۃً، وَلِذٰلِکَ قَالَ اللّٰہ ُ تَعَالٰی لِرَسُوْلِہٖ صلی اللّٰه علیہ وسلم:{ادْعُ إِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَالْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ وَجَادِلْہُمْ بِالَّتِیْ ہِیَ أَحْسَنُ} وَقَالَ لَہٗ فِي مَوْضِعٍ آخَرَ:{وَاغْلُظْ عَلَیْہِمْ}۔ فَحَکَی اللّٰہ ُ تَعَالٰی عَنْ إِبْرَاہِیْمَ علیہ السلام فِي ہٰذِہِ الآیَۃ بَعْضَ مَوَاقِفِہِ مَعَ أَبِیْہِ، وَلَیْسَ فِي ذٰلِکَ مَا یُنَافِي الْبُرُوْدُ لِأَنَّ الْمُجَاہَرَۃَ بِالْحَقِّ دُوْنَ سَبٍّ وَلاَ اِعْتَدَائٍ لاَ تُنَافِي الْبُرُوْرُ ‘‘۔[1] ’’اس سخت گفتگو سے پہلے ابراہیم علیہ السلام اپنے باپ کو نرمی کے ساتھ دعوت دے چکے تھے، جیسا کہ اللّٰه تعالیٰ نے ایک دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا:{یٰٓأَبَتِ إِنِّي قَدْ جَآئَ نِي مِنَ الْعِلْمِ مَا لَمْ یَأْتِکَ فَاتَّبِعْنِيٓ أَہْدِکَ صِرَاطًا سَوِیًّا} إلی قولہ {سَلٰمٌ عَلَیْکَ سَأَسْتَغْفِرُ لَکَ رَبِّيٓ إِنَّہُ کَانَ بِي حَفِیًّا} [2] لیکن جب انہوں نے باپ کی کفر پر ہٹ دھرمی اور ضد دیکھی، تو سخت روی اختیار کی، تاکہ وعظ ونصیحت کے سارے طریقوں کا استعمال ہو جائے، شاید کہ ان میں سے کوئی انداز ان کے باپ پر زیادہ اثر انداز ہو جائے، کیونکہ انسانی طبیعتیں جدا جدا ہیں،
[1] ملاحظہ ہو:تفسیر التحریر والتنویر ۷ / ۳۱۴۔ [2] سورۃ مریم / الایات ۴۳- ۴۷۔[ترجمہ:اے میرے باپ ! میرے پاس وہ علم آیا ہے جو آپ کے پاس آیا ہی نہیں، پس آپ میری مانیں، میں بالکل سیدھی راہ کی طرف آپ کی راہ نمائی کروں گا] سے لے کر آیت کریمہ جس کے معانی کا ترجمہ یہ ہے [آپ پر سلام ہو، میں اپنے رب سے آپ کی بخشش کی دعا کرتا رہوں گا، وہ مجھ پر بڑا ہی مہربان ہے]