کتاب: والدین کا احتساب - صفحہ 83
د:قاضی ابو سعود ؒ کی تفسیر:
انہوں نے [إِنِّي أَرَاکَ وَقَوْمَکَ فِيْ ضَلاَلٍ مُّبِیْنٍ] [1] کے متعلق لکھا ہے:
’’وَالْجُمْلَۃُ تَعْلِیْلٌ لِلإِنْکَارِ وَالتَّوْبِیْخِ۔‘‘ [2]
’’اس جملے میں [دورانِ احتساب حضرت ابراہیم علیہ السلام کے] اعتراض اور جھڑکنے کی علت کو بیان کیا گیا ہے۔‘‘
ہ:بعض زیدی مفسرین کا قول:
علامہ محمد جمال الدین قاسمی ؒ نے زیدی فرقے کے بعض مفسرین کا قول نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا:
’’وَتَدُلُّ ہٰذِہِ الآیَۃُ عَلٰی أَنَّ النَّصِیْحَۃَ فِي الدِّیْنِ وَالذَمَّ وَالتَّوْبِیْخَ لِأَجْلِہٖ لَیْسَ مِنَ الْعُقُوْقِ کَالْہِجْرَۃِ‘‘[3]
یہ آیت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ دین کی خاطر وعظ ونصیحت کرنا، جھڑکنا اور ڈانٹنا والدین کی نافرمانی کے زمرے میں شامل نہیں، جس طرح کہ [دین کی خاطر] ہجرت کرنا [ان سے جدا ہونا نافرمانی میں سے نہیں ہے]
و:شیخ ابن عاشور ؒ کا بیان:
شیخ ؒ رقم طراز ہیں:
’’اَلاِسْتِفْہَامُ فِي {أَتَتَّخِذُ أَصْنَامًا أَلِہَۃً} اِسْتِفْہَامُ إِنْکَارٍ وَتَوْبِیْخٍ۔وَالظَّاہِرُ أَنَّ الْمَحْکِيَّ فِي ہٰذِہِ الآیَۃ مَوْقِفٌ مِنْ مَوَاقِفِ إِبْرَاہِیْمَ علیہ السلام مَعَ أَبِیْہِ، وَہُوَ مَوْقِفُ غِلْظَۃٍ، فَیَتَعَیَّنُ أَنَّہُ کَانَ عِنْدَ مَا أَظْہَرَ أَبُوْہٗ تَصَلُّباً
[1] ترجمہ:یقینا میں آپ کو اور آپ کی قوم کو صریح گم راہی میں دیکھتا ہوں۔
[2] تفسیر أبي السعود ۳/۱۵۱ ؛ نیز ملاحظہ ہو:فتح البیان في مقاصد القرآن للشیخ صدیق حسن خاں ۳/۱۸۷۔
[3] تفسیر القاسمي ۶/۵۸۶۔