کتاب: والدین کا احتساب - صفحہ 79
یَجُوْزُ لَہٗ إِیْذَاؤُہٗ بِعُقُوْبَۃٍ ہِيَ مَنْعٌ عَنْ جَنایَۃٍ مُسْتَقْبِلَۃٍ مُتَوَقَّعَۃٍ بَلْ أَوْلٰی۔‘‘ [1]
’’ہم کہیں گے:باپ کے لیے خصوصی طور پر اس عام [امر بالمعروف اور نہی عن المنکر] سے استثناء ثابت ہے۔چنانچہ اس بات پر اجماع ہے کہ جلاد کے لیے اپنے باپ کو حد ِ زنا میں سنگسار کرنا جائز نہیں، اور نہ ہی وہ اس پر کوئی اور حد قائم کر سکتا ہے، بلکہ اس کے لیے تو یہ بھی روا نہیں کہ اپنے کافر باپ کو اپنے ہاتھ سے قتل کرے، بلکہ [باپ کا حق ہے کہ] بیٹے کا ہاتھ کاٹنے پر باپ پر قصاص واجب نہیں ہوتا، اور نہ ہی بیٹے کو اجازت ہے کہ اس بنا پر اپنے باپ کو اذیت پہنچائے۔مذکورہ بالا باتوں میں سے بعض کا ذکر احادیث میں آیا ہے، اور بعض باتیں اجماع سے ثابت ہیں۔
جب صورتِ حال یہ ہے کہ باپ کو قصاص میں بھی اذیت پہنچانا بیٹے کے لیے جائز نہیں، تو اس کو اس بات کی کیسے اجازت دی جا سکتی ہے کہ وہ آئندہ گناہ سے بچانے کی غرض سے باپ کو ایذا دے، اس بات کی ممانعت تو بطریق اولیٰ ہو گی۔
ب:شیخ عبدالقادر عودہ ؒ کا بیان:
انہوں نے قلم بند کیا ہے:
’’فَأَمَّا الْوَالِدَانِ فَلَیْسَ لِلْوَلَدِ عَلَیْہِمَا إِلاَّ التَّعْرِیْفُ ثُمَّ النَّہْيُ بِالْوَعْظِ وَالنُّصْحِ،وَلَیْسَ لَہٗ أَنْ یُعَنِّفَہُمَا أَوْ یُہَدِّدَہُمَا أَوْ یَضْرِبَہُمَا‘‘[2]
’’احتسابِ والدین کے دوران بیٹے کو صرف خیر وشر سے آگاہ کرنے اور وعظ ونصیحت کی اجازت ہے۔اس کو ڈانٹ ڈپٹ کرنے، ڈرانے دھمکانے اور مارنے کا حق نہیں۔‘‘
[1] إحیاء علوم الدین ۲/۳۱۸۔
[2] التشریع الجنائي الإسلامي ۱/۵۰۹۔