کتاب: والدین کا احتساب - صفحہ 76
احتساب کیا۔دونوں کے احتساب میں لطف، مہربانی، نرمی اور ادب واحترام واضح طور پر جھلکتے ہیں۔ ا: دورانِ احتساب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچا ابوطالب کو بایں الفاظ خطاب فرمایا: ’’ یَا عَمِّ قُلْ لاَ إِلٰہَ إِلاَّ اللّٰہ ُ، کَلِمَۃً أَشْہَدُ لَکَ بِہَا عِنْدَ اللّٰہِ‘‘[1] ’’اے میرے چچا ! آپ ایک کلمہ [لاَ إِلٰہَ إِلاَّ اللّٰہُ] کہہ دیجیے، تاکہ میں اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کی وجہ سے آپ کے حق میں گواہی دے سکوں۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خطاب کی ابتدا [یَا عَمِّ] [اے میرے چچا] کے الفاظِ مبارکہ سے فرما کر اپنے چچا کو اس بات کی یاد دہانی کروائی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے درمیان چچے بھتیجے کا خونی رشتہ ہے، جس کا تقاضا یہ ہے کہ آپ انہیں کسی ایسی بات کا حکم نہ دیں گے جس میں ان کا نقصان ہو، بلکہ وہ تو صرف ایسی ہی بات کا اپنے چچا کو حکم دیں گے جس میں ان کی دنیا وآخرت کی سعادت ہو۔ ب: جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو موت کی تمنا کرنے سے منع فرمایا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے بایں الفاظ خطاب فرمایا: ’’لاَ تَتَمَنَّ الْمَوْتَ یَا عَمَّ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم ! فَإِنَّکَ إِنْ تَبْقَ تَزْدَدْ خَیْراً یَکُوْنُ ذٰلِکَ فَہُوَ خَیْرٌ لَکَ۔وَإِنْ تَبْقَ تَسْتَعْتِبْ مِنْ شَيْئٍ یَکُوْنُ ذٰلِکَ خَیْراً لَکَ۔‘‘[2] ’’اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ! موت کی تمنا نہ کیجیے کیونکہ اگر آپ زندہ رہ کر نیکیوں میں اضافہ کریں تو یہ بات آپ کے لیے بہتر ہے، اور اگر آپ جی کر گناہوں سے توبہ کر لیں تو یہ بات بھی آپ کے لیے بھلی ہے۔‘‘
[1] حوالہ حدیث کے لیے ملاحظہ ہو:کتاب ہذا کا ص ۴۰۔ [2] حوالہ حدیث کے لیے دیکھئے:کتاب ہذا کا ص۴۱۔۴۲۔