کتاب: والدین کا احتساب - صفحہ 65
اس خطبہ میں ہم دیکھتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جاہلیت کے معاملات کو کلی طور پر ختم کرنے کے ارادے کو عملی شکل دینے کی ابتدا اپنے قرابت داروں کے متعلقہ حقوق کو ختم کرنے سے کی۔ امام نووی ؒ نے اس خطبہ پر تعلیق کے دوران تحریر کیا ہے: ’’إِنََّ الإِمَامَ وَغَیْرَہُ مِمَّنْ یَأْمُرُ بِمَعْرُوْفِ أَوْ یَنْہَی عَنْ مُنْکَرٍ یَنْبَغِيْ أَنْ یَبْدَأ بِنَفْسِہِ وَأَہْلِہِ فَہُوَ أَقْرَبُ إِلَی قَبُوْلِ قَوْلِہِ‘‘[1] ’’نیکی کا حکم دینے اور برائی سے منع کرنے والے امام اور دیگر حضرات کو چاہیے کہ وہ اس کی ابتدا خود اپنے آپ سے، اور اپنے گھر والوں سے کریں۔اس سے ان کی بات کی قبولیت کے امکانات میں اضافہ ہوتا ہے۔‘‘ خلاصۂِ گفتگو یہ ہے کہ والدین کے احتساب کی وجہ سے، بلکہ احتساب کی ابتدا ہی ان سے کرنے کی بدولت اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے احتساب کی قوت میں اضافہ، اور احتساب کرنے والے پر طعن زنی کے امکانات میں خاصی کمی ہوتی ہے۔واللّٰہ تعالٰی أعلم بالصواب۔ (۱۲) کنبے میں مقامِ والدین کی بنا پر ان کا احتساب یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ مقام ومرتبے والے حضرات کا نیکی کی راہ اختیار کرنے، اور اس کو چھوڑنے کا، اپنے زیرِ اثر لوگوں پر گہرا اثر ہوتا ہے۔اسی بنا پر حضرات انبیاء اپنی اپنی قوموں کے رؤساء اور سرداروں کو دعوتِ دین دینے کا خاص اہتمام کرتے۔
[1] شرح النووي ۸ /۱۸۲۔