کتاب: والدین کا احتساب - صفحہ 62
۲:شیخ عدوی ؒ کی تحریر: حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اپنے باپ کو دعوت دینے کی حکمت بیان کرتے ہوئے شیخ محمد عدوی ؒ نے قلم بند کیا ہے: ’’وَمِنْ فَوَائِدِ دَعْوَۃِ إِبْرَاہِیْمَ علیہ السلام لِأَبِیْہِ أَنْ یُقِیْمَ الْحُجَّۃَ عَلٰی قَوْمِہٖ، حَتّٰی لاَ یَقُوْلُوْا:لِمَاذَا یَدَعُ أَقَارِبَہٗ فِي ضَلاَلِہِمْ وَیَدْعُوْنَا؟ أَلَیْسَ مِنَ اللاَّئِقِ أَنْ لاَ یُفَرِّقَ بَیْنَ قَرِیْبٍ وَبَعِیْدٍ، إِذَا کَانَ مَا یَقُوْلُہٗ حَقًّا ؟ فَلِکَيْ تَنْقَطِعَ أَعْذَارُہُمْ دَعَا أَبَاہُ إِلٰی عِبَادَۃِ اللّٰہِ وَحَدَہٗ کَمَا دَعَا قَوْمَہٗ۔‘‘[1] ’’حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اپنے باپ کو دعوت دینے کے فوائد میں سے ایک یہ ہے کہ ان کی قوم پر اتمام حجت ہو جائے، اور ان میں سے کوئی یہ کہنے کی جسارت نہ کر سکے کہ جب وہ اپنے قرابت داروں کو گم راہی سے نکلنے کی دعوت نہیں دے رہا تو پھر ہمیں کیوں دعوت دیتا ہے ؟ اگر اس کی دعوت سچی ہے تو کیا یہ مناسب نہیں کہ وہ دعوت میں قریبی اور اجنبی میں فرق روا نہ رکھے ؟ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی قوم کے اس عذر کی بیخ کنی کی خاطر اپنے باپ کو اسی طرح صرف ایک اللہ تعالیٰ کی عبادت کا حکم دیا جس طرح کہ انہیں دیا۔‘‘ شیخ عدوی ؒ نے یہ بھی لکھا ہے: ’’وَلَعَلَّ ہٰذَا ہُوَ السِّرُّ فِي تَکْلِیْفِ نَبِیِّنَا مُحَمَّدٍ صلی اللّٰه علیہ وسلم بِإِنْذَارِ عَشِیْرَتِہِ الأَقْرَبِیْنَ قَبْلَ إِنْذَارِہٖ لِقَوْمِہٖ، وَقَدْ صَدَعَ بِالأَمْرِ، وَأَخَذَ یَجْمَعُہُمْ وَیُخَوِّفُہُمْ مِنَ اللّٰہِ ویُرِیْہِمْ أَنَّہٗ لاَ یُغْنِيْ عَنْہُمْ مِنْ عَذَابِ اللّٰہِ شَیْئًا
[1] دعوۃ الرسل ص ۴۴۔