کتاب: والدین کا احتساب - صفحہ 61
بعض علمائے امت کے اقوال: قرآن وسنت کی بعض نصوص کی تفسیر وشرح کے ضمن میں بعض علمائے امت نے اس حقیقت کو خوب کھول کر بیان کیا ہے۔ذیل میں ان میں سے تین حضرات کے اقوال ملاحظہ فرمائیے: ۱:علامہ رازی ؒ کا بیان: اللہ تعالیٰ کے ارشاد گرامی {فَلاَ تَدْعُ مَعَ اللّٰہِ إِلٰہًا آخَرَ فَتَکُوْنَ مِنَ الْمُعَذَّبِیْنَ۔وَأَنْذِرْ عَشِیْرَتَکَ الْأَقْرَبِیْنَ}[1]کی تفسیر میں علامہ رازی ؒ نے تحریر کیا ہے: ’’بَدَأَ -سُبْحَانَہٗ وَتَعَالٰی- بِالرَّسُوْلِ صلی اللّٰه علیہ وسلم فَتَوَعَّدَہٗ إِنْ دَعَا مَعَ اللّٰہِ إِلٰہًا آخَرَ، ثُمَّ أَمَرَہٗ بِدَعْوَۃِ الأَقْرَبِ فَالأَقْرَبِ، وَذٰلِکَ لأَنَّہٗ إِذَا تَشَدَّدَ عَلٰی نَفْسِہٖ أَوَّلاً، ثُمَّ بِالأَقْرَبِ فَالأَقْرَبِ ثَانِیًا، لَمْ یَکُنْ لِأَحَدٍ طَعْنٌ الْبَتَّۃً، وَکَانَ قَوْلُہٗ أَنْفَعَ وَکَلاَمُہٗ أَنْجَعَ۔‘‘ [2] ’’اللہ تعالیٰ نے [غیر اللہ کو پکارنے سے روکنے کی] ابتدا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمائی، اور انہیں اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی اور کو پکارنے سے ڈرایا، اور پھر انہیں حکم دیا کہ وہ درجہ بدرجہ اپنے اقارب کو بھی [اسی بات کا] حکم دیں، اور یہ اس لیے کہ جب وہ [اس بارے میں] پہلے اپنے آپ پر اور پھر اپنے رشتہ داروں پر سختی کریں گے تو کسی کے لیے طعن زنی کی گنجائش باقی نہ رہے گی، اور آپ کی بات زیادہ مفید اور دعوت زیادہ موثر ہو گی۔‘‘
[1] سورۃ الشعراء / الآیتان ۲۱۳-۲۱۴ [ترجمہ:سو آپ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی اور معبود کو نہ پکاریں ورنہ آپ بھی سزا پانے والے لوگوں میں شامل ہو جائیں گے، اور اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرائیے] [2] التفسیر الکبیر ۲۴/۱۷۲۔