کتاب: والدین کا احتساب - صفحہ 54
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ساری صورتِ حال کا اطمینان اور سکون سے مشاہدہ کرتے رہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’إِنَّا کُنَّا أَحْوَجَ إِلٰی غَیْرِ ہٰذَا مِنْکَ یَا عُمَرُ ! أَنْ تَأْمُرَنِي بِحُسْنِ الأَدَائِ، وَتَأْمُرَہٗ بِحُسْنِ التَّبَاعَۃِ۔‘‘ [1] ’’اے عمر - رضی اللہ عنہ - تمہاری جانب سے ہمیں اس کی بجائے ایک اور بات کی زیادہ ضرورت تھی۔تم مجھے حسن ِ ادائیگی کا حکم کرتے، اور اس کو اچھے انداز سے تقاضا کرنے کا حکم دیتے۔‘‘ اس حدیث شریف سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اس بات کی ترغیب دی کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قرض کی حسن ِ ادائیگی کا حکم دیتے۔ حدیث پر امام ابن حبان ؒ کا قائم کردہ باب: [ذِکْرُ الاِسْتِحْبَابِ لِلْمَرْئِ أَنْ یَّأْمُرَ بِالْمَعْرُوْفِ مَنْ ہُوَ فَوْقَہٗ وَمِثْلَہٗ وَدُوْنَہٗ فِي الدِّیْنِ وَالدُّنْیَا إِذَا کَانَ قَصْدُہٗ فِیْہِ النَّصِیْحَۃَ دُوْنَ التَّعْیِیْرِ] [2] [آدمی کے دین ودنیا کے اعتبار سے اپنے سے بلند مقام والے، برابر رتبے والے، اور کم درجے والے کو نیکی کا حکم دینے کے مستحب ہونے کا ذکر، جب کہ اس کا مقصد نصیحت ہو، طعن زنی نہ ہو]
[1] الإحسان في تقریب صحیح ابن حبان، کتاب البر والإحسان، باب الصدق والأمر بالمعروف والنہي عن المنکر، ذکر الاستحباب للمرء أن یأمر بالمعروف من ہو فوقہ ومثلہ ودونہ في الدین والدنیا إذا کان قصدہ فیہ النصیحۃ دون التعییر، جزء من رقم الحدیث ۲۸۸، ۱/۵۲۱-۵۲۲۔حافظ مزی ؒ نے اس حدیث کے متعلق کہا ہے:’’یہ حدیث [حسن] اور دلائل نبوت میں مشہور ہے‘‘۔(التہذیب ۷/۲۴۳-۲۴۴، منقول از ہامش الإحسان ۱/۵۲۵)۔ [2] الإحسان في تقریب صحیح ابن حبان ۱/۵۲۱۔