کتاب: والدین کا احتساب - صفحہ 51
’’أَنَّ النَّبِيَّ صلی اللّٰه علیہ وسلم صَلَّی صَلاَۃً فَقَرَأَ فِیْہَا، فَلُبِسَ عَلَیْہِ۔فَلَمَّا انْصَرَفَ قَالَ لِأُبِيٍّ - رضی اللّٰه عنہ - ’’أَصَلَّیْتَ مَعَنَا؟۔‘‘ قَالَ:’’نَعَمْ۔‘‘ قَالَ:’’ما مَنَعَکَ؟۔‘‘[1] ’’یقینا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک نماز پڑھائی اور اس میں قرأت فرمائی۔آپ کو قرأت میں شک گزرا۔نماز سے فارغ ہو کر آپ نے حضرت ابی رضی اللہ عنہ سے فرمایا:’’کیا تو نے ہمارے ساتھ نماز ادا کی ہے؟‘‘ انہوں نے عرض کی:’’جی ہاں۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:تجھے کس چیز نے منع کیا۔‘‘ امام خطابی ؒنے شرح حدیث میں تحریر کیا:’’آپ کا مقصود یہ تھا کہ جب تم نے مجھے قرأت میں شک اور تردد میں دیکھا تو تمہیں مجھے لقمہ دینے سے کس بات نے روکا؟‘‘ [2] اس حدیث شریف سے بھی یہ بات واضح ہوتی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو قرأت میں شک پیدا ہونے کی صورت میں حضرت ابی رضی اللہ عنہ کو چاہیے تھا کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یاد دہانی کروانے کی خاطر لقمہ دیتے۔
[1] سنن أبي داود، کتاب الصلاۃ، باب الفتح علی الإمام في الصلاۃ، رقم الحدیث ۹۰۳، ۳/۱۲۳-۲۴ ؛ والإحسان في تقریب صحیح ابن حبان، کتاب الصلاۃ، باب ما یکرہ للمصلِّي وما لا یکرہ، رقم الحدیث ۲۲۴۲، ۶/ ۱۳-۱۴۔متن میں الفاظِ حدیث سنن ابی داود سے نقل کیے گئے ہیں۔علامہ شوکانی ؒ نے اس حدیث کے متعلق لکھا ہے:’’اس کو حاکم اور ابن حبان نے روایت کیا اور اس کی اسناد کے روایت کرنے والے [ثقہ] ہیں‘‘۔(نیل الأوطار ۲:۳۷۳) ؛ شیخ البانی ؒ نے اس کو [صحیح] قرار دیا ہے۔(ملاحظہ ہو:صحیح سنن أبي داود ۱/۱۷۱)۔ [2] معالم السنن ۱/۲۱۶۔