کتاب: والدین کا احتساب - صفحہ 47
میں نے [دوبارہ] عرض کی:’’نماز۔‘‘ انہوں نے فرمایا:’’چلتے جاؤ۔‘‘ اس طرح جب ہم دو یا تین میل نکل گئے تو پھر وہ [سواری سے] اترے، اور نماز ادا کی۔پھر فرمایا:’’میں نے خود دیکھا ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سفر میں تیزی کے ساتھ چلنا چاہتے تو اسی طرح نماز پڑھتے۔‘‘ حافظ ابن حجر ؒ نے حضرت سالم ؒ کے قول [فَقُلْتُ:’’اَلصَّلاَۃَ‘‘] [میں نے کہا:’’نماز‘‘] کے متعلق تحریر کیا ہے:’’اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ وہ عبادت [یعنی نمازوں] کے اوقات [کی پابندی] کا کتنا اہتمام کرتے تھے۔‘‘ [1] حضرت سالم ؒ کا خیال تھا کہ جس طرح حضر میں اوقات ِ نماز کی پابندی کی جاتی ہے، ٹھیک اسی طرح سفر میں بھی پابندی ضروری ہے، اسی بنا پر جب انہوں نے اپنے والدِ محترم جلیل القدر صحابی رضی اللہ عنہ کو نمازِ مغرب ادا کرنے میں تاخیر کرتے دیکھا تو انہیں یاد دلایا کہ وقت ِ نماز ہو چکا ہے، اور انہیں اس کو ٹھیک وقت پر ادا کرنا چاہیے۔حضرت سالم ؒ نے یہ تنبیہ وتذکیر ایک مرتبہ کرنے پر اکتفا نہ کیا بلکہ دو دفعہ کی۔ بیٹے کے احتساب پر حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے یہ نہیں فرمایا کہ میرے والد ہونے کے سبب تمہیں میرے احتساب کا حق نہیں، بلکہ یہ واضح کیا کہ ان کا طرزِ عمل سنت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق ہے، اس لیے ان پر احتساب درست نہیں۔واللّٰہ تعالی أعلم بالصواب۔
[1] فتح الباري ۲/۵۷۲۔