کتاب: والدین کا احتساب - صفحہ 45
فَفَعَلَ‘‘[1] ’’اس [ابن ابی ابن سلول] کے بیٹے عبداللہ بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے اس سے کہا:’’اللہ تعالیٰ کی قسم ! تو اس وقت تک [شہر کی جانب] لوٹ نہیں سکتا جب تک کہ تو اس بات کا اقرار نہ کر لے کہ تو ہی ذلیل ہے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم معزز ہیں۔‘‘ چنانچہ اس نے ایسے ہی کیا [یعنی اس بات کا اعتراف کیا]۔ ایک روایت میں ہے کہ حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ نے اپنے باپ کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کے سبب، اس کے قتل کی اجازت طلب کی، لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کی اجازت نہ دی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’لاَ، وَلٰکِنْ بِرَّ أَبَاکَ وَأَحْسِنْ صُحْبَتَہُ۔‘‘ [2] ’’نہیں [یعنی تمہیں باپ کو قتل کرنے کی اجازت نہیں]، بلکہ تو اپنے باپ کے ساتھ نیک سلوک اور اچھا معاملہ کر۔‘‘ خلاصہئِ گفتگو یہ ہے کہ جب ابن ابی ابن سلول نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کی تو اس کے بیٹے حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ نے اس کا شدید احتساب کیا۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے باپ کے قتل کی بیٹے کو اجازت تو نہ دی، البتہ انہیں باپ کے احتساب پر بھی نہ ٹوکا، اور یہ واقعہ بلاشک وشبہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ ضرورت
[1] جامع الترمذي، تفسیر القرآن، سورۃ المنافقین، رقم الحدیث ۳۵۳۴، ۹/۱۵۵۔امام ترمذی نے اس حدیث کو [حسن صحیح] کہا ہے۔(ملاحظہ ہو:المرجع السابق ۹ / ۱۵۵) ؛ شیخ البانی ؒ نے اس کو [صحیح] قرار دیا ہے۔(ملاحظہ ہو:صحیح سنن الترمذي ۳/۱۲۰)۔ [2] ملا حظہ ہو:مجمع الزوائد، کتاب المناقب، باب في عبد اﷲ رضی اللہ عنہ بن عبد اﷲ بن أبي، ۹/۳۱۸۔حافظ ہیثمی ؒ نے اس حدیث کے متعلق تحریر کیا ہے:’’اس کو بزار ؒ نے روایت کیا، اور اس کے راوی ثقہ ہیں‘‘۔(المرجع السابق ۹/۳۱۸)۔