کتاب: والدین کا احتساب - صفحہ 44
یَقْتُلُ أَصْحَابَہُ۔‘‘[1] ’’ہم ایک غزوہ میں تھے۔ایک مہاجر شخص نے ایک دوسرے انصاری شخص کی پیٹھ پر اپنے ہاتھ یا اپنے قدم کے درمیانی حصے کے ساتھ ٹھوکر لگائی۔مہاجر نے آواز دی:’’اے مہاجرو!‘‘ انصاری نے بھی آواز دی:’’اے گروہِ انصار!۔‘‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان [آوازوں] کو سنا تو فرمایا:’’یہ جاہلیت کے بلاوے کیسے ہیں؟‘‘ صحابہ نے عرض کی:’’ایک مہاجر شخص نے ایک انصاری شخص کی پیٹھ پر اپنے ہاتھ یا اپنے قدم کے درمیانی حصے سے ٹھوکر لگائی ہے۔‘‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ان [بلاووں] کو چھوڑو، یہ تو گندے ہیں۔‘‘ عبداللہ بن ابی ابن سلول نے [اس واقعہ کو] سنا تو کہنے لگا:’’کیا انہوں نے [مہاجرین] نے ایسے ہی کیا ؟ اگر ہم مدینہ پلٹے تو معزز لوگ ذلیل لوگوں کو وہاں سے ضرور نکال دیں گے۔‘‘ عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کی:’’اے اللہ تعالیٰ کے رسول - صلی اللہ علیہ وسلم - مجھے اس منافق کی گردن مارنے [کی اجازت] دیجیے۔‘‘ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اسے چھوڑ دو، لوگ یہ نہ کہیں کہ محمد - صلی اللہ علیہ وسلم - اپنے ساتھیوں کو قتل کرتا ہے۔‘‘ ایک دوسری روایت میں ہے: ’’فَقَالَ لَہُ ابْنُہُ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ:’’وَاللّٰہِ! لاَ تَنْقَلِبُ حَتَّی تُقِرَّأَنَّکَ الذَّلِیْلُ وَرَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم الْعَزِیْزُ۔‘‘
[1] جامع الترمذي، أبواب تفسیر القرآن، سورۃ المنافقین، رقم الحدیث ۳۵۳۴، ۹/ ۱۵۴ -۱۵۵