کتاب: والدین کا احتساب - صفحہ 42
’’دَخَلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم عَلٰی عَمِّہِ وَہُوَ شَاکٍ، یَتَمَنَّی الْمَوْتَ لِلَّذِي ہُوَ فِیْہِ مِنْ مَرَضِہِ، فَضَرَبَ رَسُوْلُ اللّٰہِ بِیَدِہِ عَلٰی صَدْرِ الْعَبَّاسِ، ثُمَّ قَالَ:’’لاَ تَتَمَنَّ الْمَوْتَ یَا عَمَّ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم ! فَإِنَّکَ إِنْ تَبْقَ تَزْدَدْ خَیْراً یَکُوْنُ ذٰلِکَ فَہُوَ خَیْرٌ لَکَ۔وَإِنْ تَبْقَ تَسْتَعْتِبْ مِنْ شَيْئٍ یَکُوْنُ ذٰلِکَ خَیْراً لَکَ‘‘۔[1] ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے بیمار چچا کے ہاں تشریف لائے، انہوں نے اپنی بیماری [کی شدت] کے سبب مرنے کی تمنا کی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا دست [مبارک] حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے سینے پر مارا، اور پھر فرمایا:’’اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ! موت کی خواہش نہ کیجیے، کیونکہ اگر آپ زندہ رہ کر نیکیوں میں اضافہ کریں تو یہ بات آپ کے لیے بہتر ہے، اور اگر آپ جی کر گناہوں سے توبہ کر لیں تو یہ بات بھی آپ کے لیے بھلی ہے۔‘‘ اس حدیث شریف میں یہ بات واضح ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو موت کی تمنا کرنے سے منع فرمایا، اور ساتھ ہی منع کرنے کی حکمت بھی بیان فرما دی۔ خلاصۂ کلام یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچاؤں کا احتساب فرمایا، اور چچا باپ کی مانند ہوتا ہے جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ہی بیان فرمایا ہے [2]اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عمل میں اللہ تعالیٰ کی ملاقات اور قیامت کے دن کی امید رکھنے والوں اور اللہ تعالیٰ کا
[1] المسند، ۶/۳۳۹ (ط:المکتب الإسلامي)، ومسند أبي یعلی الموصلي، مسند أم الفضل بنت الحارث رضي اﷲ عنہا، رقم الحدیث ۶ (۷۰۷۶)، ۱۲/ ۵۰۳، اور متن میں ذکر کردہ الفاظ حدیث مسند ابي یعلی کے ہیں۔مسند ابي یعلی کے محقق نے اس حدیث کی سند کو [جید] قرار دیا ہے۔(ملاحظہ ہو:ہامش مسند أبي یعلی ۱۲/۵۰۳)۔ [2] اس بارے میں حدیث شریف اور اس کی تخریج کتاب ہذا کے ص ۲۹میں ملاحظہ فرمائیے۔