کتاب: والدین کا احتساب - صفحہ 39
احتساب کی راہ میں رکاوٹ نہ بن سکا۔اس طرح اللہ تعالیٰ نے اس حقیقت کو واضح فرما دیا کہ باپوں کے ادب کا معنی یہ نہیں کہ انہیں غلط کام کرتے رہنے دیا جائے۔اگر ان کا احتساب ان کے ناراض ہونے کا سبب بنتا ہے تو [کچھ پرواہ نہیں کیونکہ] یہی طرز عمل رضائے الٰہی کے حصول کا باعث ہے، اور اللہ تعالیٰ کا حق باپوں کے حق سے زیادہ ہے۔‘‘
د:شیخ ابوبکر جزائری نے قلم بند کیا ہے:
’’مِنْ ھِدَایۃَِ الْآیَاتِ:إِنْکَارٌ الشِّرْکِ عَلَی أَھْلِہِ وَعَدَمَ إِقْرَارِھِمْ وَلَوْ کَانُوا أَقْرَبَ النَّاسِ إِلَی الْمَرْئِ۔‘‘ [1]
’’ان آیات سے حاصل ہونے والی ہدایت کی باتوں میں سے ایک یہ ہے کہ مشرکوں کو شرک پر ٹوکا جائے، اور ان سے موافقت نہ کی جائے اگرچہ وہ [شرک کا ارتکاب کرنے والا] انتہائی قریبی رشتے دار کیوں نہ ہو۔‘‘
خلاصہ ئِ کلام یہ ہے کہ ابو الانبیاء ابراہیم علیہ السلام نے اپنے باپ کا احتساب کیا، اور یہ بات بلاشک وشبہ احتسابِ والدین کی شرعی حیثیت پر دلالت کناں ہے۔
(۴)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنے چچاؤں کا احتساب
احتسابِ والدین کے دلائل میں سے ایک یہ ہے کہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچاؤں کا احتساب کیا۔اس بات کے تین شواہد بتوفیق الٰہی ذیل میں ذکر کیے جا رہے ہیں:
۱:حکمِ الٰہی کی تعمیل میں چچاؤں اور پھوپھی کا احتساب:
آیتِ کریمہ{وَأَنْذِرْ عَشِیْرَتَکَ الْأَقْرَبِیْنَ} کے نازل ہونے کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچاؤں اور پھوپھی حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کو
[1] أیسر التفاسیر ۱/۶۲۵۔