کتاب: والدین کا احتساب - صفحہ 38
’’آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ نصیحت کرنا دین میں واجب ہے، خصوصاً اقارب کے لیے۔اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:{وَأَنْذِرْ عَشِیْرَتَکَ الْأَقْرَبِیْنَ} اور ارشاد فرمایا {قُوْآ أَنْفُسَکُمْ وَأَہْلِیْکُمْ نَارًا}[1] اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’وَابْدَأْ بِمَنْ تَعُوْلُ‘‘[2] اسی بنا پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے [دعوت کی] ابتدا علی، خدیجہ اور زید رضی اللہ عنہم سے کی، اور یہ آپ کے ساتھ (ایک) ہی گھر میں رہائش پذیر تھے، یہ لوگ ایمان لا کر باقی لوگوں پر سبقت لے گئے، پھر آپ نے قریش کے باقی تمام لوگوں کو دعوت دی، پھر اہل عرب کو، اور پھر غلاموں کو۔ابراہیم علیہ السلام نے [بھی] دعوت کی ابتدا اپنے باپ اور قوم سے کی۔‘‘ ج:شیخ احمد عدوی ؒ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے باپ کے احتساب کے واقع سے مستفاد باتیں بیان کرتے ہوئے تحریر کیا ہے: ’’یُرِیْنَا اللّٰہُ تَعَالَی أَنَّ نَبِيَّ اللّٰہِ إِبْرَاہِیْمَ رَأَی أَبَاہُ وَقَوْمَہ یَعْبُدُوْنَ الْأَصْنَامَ فَأَنْکَرَ عَلَیْھِمْ، وَلَمْ تَمْنَعْہُ الأَبُوۃُ مِنْ ذٰلِکَ الْإِنکَارِ، لِیُریَنَا أَنَّہُ لَمْ یَکُنْ مِنَ الْأَدَبِ مَعَ الْآبَائِ تَرْکُھُمْ، وَمَا ھُمْ فِیْہِ مِنْ بَاطِلِ تَأدّباً مَعَھُمْ، وَلَئِنْ کَانَ ذٰلِکَ الْعَمَلُ مُغْصِبًا لِلْآبَائِ فَھُوَ مُرْضٍ لِلرَّبِ، وَحَقُّ اللّٰہِ تَعَالَی فَوْقَ حَقِّ الْآبَائِ۔‘‘[3] اللہ تعالیٰ ہمیں یہ بتلا رہے ہیں کہ اس کے نبی ابراہیم علیہ السلام نے جب اپنے باپ اور اپنی قوم کو بتوں کی پرستش کرتے دیکھا تو احترامِ باپ ان کے
[1] سورۃ التحریم / جزء من الآیۃ ۵ [ترجمہ:تم اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو آگ سے بچاؤ] [2] ملاحظہ ہو:صحیح البخاري، کتاب الزکاۃ، باب لا صدقۃ إلا عن ظہر غنی، رقم الحدیث ۱۴۲۶، ۳/۲۹۴۔[ترجمہ:جن کی عیالت [کفالت] تیرے ذمے ہے ان سے ابتدا کر] [3] دعوۃ الرسل إلی اﷲ تعالی ص ۴۳