کتاب: والدین کا احتساب - صفحہ 30
وَالْحِجَارَۃُ عَلَیْہَا مَلٰٓئِکَۃٌ غِلاَظٌ شِدَادٌ لاَّ یَعْصُوْنَ اللّٰہ َ مَآ أَمَرہُمْ وَیَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ} [1]
[ترجمہ:اے ایمان والو ! تم اپنے آپ کو اور اپنے اہل وعیال کو آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے، جس پر نہایت تند خو اور سخت گیر فرشتے مقرر ہیں، جو حکم ان کو اللہ تعالیٰ دیتا ہے وہ اس کی نافرمانی نہیں کرتے، اور جو حکم انہیں دیا جاتا ہے اس کو بجا لاتے ہیں]
جہنم کی آگ سے بچانے سے مراد:
حضرت قتادہ ؒ نے [اہل کو آگ سے بچانے] کی تفسیر میں فرمایا ہے کہ انہیں اطاعت الٰہی کا حکم دے، اس کی نافرمانی سے منع کرے، ان سے احکام الٰہیہ کی پابندی کروائے، اور اس سلسلے میں ان کے ساتھ تعاون کرے، اور جب وہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کا کوئی کام کریں تو انہیں اس سے روک دے، اور اس پر جھڑک دے۔[2]
حافظ ابن جوزی ؒ کی بیان کردہ تفسیر کے مطابق اپنی جانوں کو عذاب سے بچانے کی صورت یہ ہے کہ اوامر الٰہیہ کی تعمیل کرے اور اس کی ممنوعہ باتوں سے دور رہے، اور اہل کو عذاب سے بچانے کی صورت یہ ہے کہ انہیں نیک اعمال کرنے کا حکم دیا جائے اور برے کاموں سے منع کیا جائے۔[3]
علامہ ابن حیان ؒ کے بیان کے مطابق اہل کو جہنم کی آگ سے بچانے کا معنی یہ ہے کہ انہیں اللہ تعالیٰ کی اطاعت پر لگائے رکھے، اور اپنے ذمہ فرائض کے ادا کرنے کا پابند کرے۔[4]
[1] سورۃ التحریم / الآیۃ ۵۔
[2] ملاحظہ ہو:تفسیر الطبري ۲۸ /۱۰۷ ؛ وتفسیر ابن کثیر ۴/۴۱۲ - ۴۱۳۔
[3] ملاحظہ ہو:زاد المسیر ۸/۳۱۲۔
[4] ملاحظہ ہو:تفسیر البحر المحیط ۸/۲۸۷۔