کتاب: والدین کا احتساب - صفحہ 29
اے فاطمہ بنت محمد - صلی اللہ علیہ وسلم - ! میرے مال میں سے جو چاہو مجھ سے طلب کر لو، لیکن اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں تمہیں کوئی فائدہ نہ پہنچا سکوں گا۔‘‘
دوسری اور تیسری دونوں روایات سے یہ بات واضح طور پر معلوم ہوتی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خاندان کے قرابت داروں کو عذاب الٰہی سے ڈراتے وقت اپنے چچاؤں اور پھوپھی کو بھی ڈرایا۔اور یہ بات مسلمہ ہے کہ چچا باپ کی مانند ہوتا ہے۔خود ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حقیقت کو بیان فرمایا۔امام ترمذیؒ نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے کہ یقینا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’اَلْعَبَّاسُ عَمُّ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم، وَإِنَّ عَمَّ الرَّجُلِ صِنْوُ أَبِیْہِ‘‘[1]
’’عباس - رضی اللہ عنہ - رسول اللہ - صلی اللہ علیہ وسلم - کے چچا ہیں اور چچا باپ کی مثل ہے۔‘‘
علامہ مبارکپوری ؒ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد گرامی [وَاِنَّ عَمَّ الرَّجُلِ صِنْوُ أَبِیْہِ] کی شرح میں تحریر کیا ہے:’’چچا باپ ہی کی مثل ہے، اس کا احترام باپ ہی کی طرح کیا جاتا ہے، اور اس کو اذیت پہنچانا ایسے ہی ہے جیسے کہ باپ کو اذیت دی۔‘‘ [2]
۲:اہل کو جہنم کی آگ سے بچانے کا حکمِ ربانی:
اللہ تعالیٰ نے اہلِ ایمان کو اس بات کا حکم دیا ہے کہ وہ اپنی جانوں اور اپنے اہل کو جہنم کی آگ سے بچائیں۔
ارشاد رب العالمین ہے:
{یٰٓأَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوٓا أَنْفُسَکُمْ وَأَہْلِیْکُمْ نَارًا وَقُوْدُہَا النَّاسُ
[1] جامع الترمذي، أبواب المناقب، باب، رقم الحدیث ۴۰۱۳، ۱۰/۱۸۱۔امام ترمذي ؒ نے اس حدیث کو [حسن غریب] قرار دیا ہے۔(ملاحظہ ہو:المرجع السابق ۱۰ / ۱۸۱)؛ اور شیخ البانی ؒ نے اس کو [صحیح] کہا ہے۔(ملاحظہ ہو:صحیح سنن الترمذي ۳/۲۲۲)
[2] ملاحظہ ہو:تحفۃ الأحوذي ۱۰ /۱۸۱