کتاب: والدین کا احتساب - صفحہ 26
ایک شخص نے کہا [شریک (یعنی حدیث کے راوی) نے اس کا نام ذکر نہیں کیا]:’’اے اللہ کے رسول - صلی اللہ علیہ وسلم - ! آپ تو [جودوسخا کے] سمندر ہیں، اس ذمہ داری کو کون سر انجام دے سکتا ہے؟‘‘
انہوں [حضرت علی رضی اللہ عنہ ] نے بیان کیا:’’پھر ایک دوسرے شخص نے [کچھ] گفتگو کی۔‘‘
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی بات کی پیش کش اپنے گھر والوں پر فرمائی، تو حضرت علی - رضی اللہ عنہ - نے کہا:’’میں [یعنی میں آپ کی پیش کش قبول کرنے کے لیے حاضر ہوں]۔‘‘
ب:کوہ صفا سے کنبے والوں کو ڈرانا:
قریبی رشتے داروں کو ڈرانے کے متعلق حکمِ الٰہی کی تعمیل کی غرض سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اور طریقہ بھی اختیار فرمایا۔اس کا ذکر امام بخاری ؒ نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے حوالے سے روایت کردہ حدیث میں کیا ہے۔انہوں نے بیان فرمایا:
’’لَمَّا نَزَلَتْ {وَأَنْذِرْ عَشِیْرَتََکَ الْأَقْرَبِیْنَ} صَعِدَ النَّبِيُّ صلی اللّٰه علیہ وسلم عَلَی الصَّفَا، فَجَعَلَ یُنَادِي:’’یَا بَنِي فِہْرٍ! یَا بَنِي عَدِيٍّ!‘‘- لِبْطُوْنِ قُرَیْشٍ - حَتَّی اجْتَمَعُوْا۔
فَجَعَلَ الرَّجُلُ إِذَا لَمْ یَسْتَطِعْ أَنْ یَخْرُجَ أَرْسَلَ رَسُوْلاً لِیَنْظُرَ مَا ہُوَ۔فَجَائَ أَبُو لَہَبٍ وَقُرَیْشٌ فَقَالَ:’’أَرَأَیْتُکُمْ لَوْ أَخْبَرْتُکُمْ أَنَّ خَیْلاً بِالْوَادِي تُرِیْدُ أَنْ تُغِیْرَ عَلَیْکُمْ أَکُنْتُمْ مُصَدِّقِيَّ؟۔‘‘
قَالُوْا:’’نَعَمْ، مَا جَرَّبْنَا عَلَیْکَ إِلاَّ صِدْقًا۔‘‘
قَالَ:’’فَإِنِّي نَذِیْرٌ لَکُمْ بَیْنَ یَدَيْ عَذَابٍ شَدِیْدٍ۔‘‘