کتاب: والدین کا احتساب - صفحہ 24
داروں کو ڈرائیں۔ارشاد ربانی ہے:
{وَأَنْذِرْ عَشِیْرَتَکَ الْأَقْرَبِیْنَ} [1]
[ترجمہ:اور اپنے قریبی رشتے داروں کو ڈرائیے]
علامہ راغب اصفہانی ؒ کے بیان کے مطابق [عَشِیْرَۃ] سے مراد آدمی کے قریبی رشتے داروں کا وہ مجموعہ ہے جن کی بدولت وہ اپنے تئیں تعداد میں زیادہ تصور کرتا ہے۔[2]
اس آیت شریف سے پہلے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
{نَزَلَ بِہِ الرُّوْحُ الْاَمِیْنُ۔عَلٰی قَلْبِکَ لِتَکُوْنَ مِنَ الْمُنْذِرِیْنَ}[3]
اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں پہلے یہ بیان فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ڈرانے والے ہیں، پھر انہیں اپنے اقارب کو ڈرانے کا حکم دیا۔اس طرح اللہ تعالیٰ نے انذارِ عام[4] کے بعد خصوصی طور پر اقارب کو ڈرانے کا حکم دیا۔اور اس سے اقارب کو ڈرانے کی اہمیت اجاگر ہوتی ہے۔شیخ ابن عاشور ؒ نے اس بارے میں تحریر کیا ہے:{وَأَنْذِرْ عَشِیْرَتَکَ الْأَقْرَبِیْنَ} کا عطف {نَزَلَ بِہِ الرُّوْحُ الْاَمِیْنُ۔عَلٰی قَلْبِکَ لِتَکُوْنَ مِنَ الْمُنْذِرِیْنَ} پر ہے، اور عام کے ذکر کے بعد خاص کا ذکر اس کی اہمیت کو واضح کرتا ہے۔[5]
[1] سورۃ الشعراء /الآیۃ ۲۱۴۔
[2] ملاحظہ ہو:المفردات في غریب القرآن، مادۃ ’’عشر‘‘، ص ۳۳۵۔
[3] سورۃ الشعراء /الآیتان / ۱۹۳۔۱۹۴۔اور ان کا ترجمہ یہ ہے:[اس [قرآن کریم] کو روح الامین [امانت دار فرشتہ جبریل علیہ السلام ] لے کر آپ کے دل پر اترا ہے تاکہ آپ ڈرانے والوں میں سے ہو جائیں]
[4] اس سے مراد عام لوگوں کو ڈرانا ہے۔
[5] ملاحظہ ہو:تفسیر التحریر والتنویر ۱۹ /۲۰۰۔