کتاب: والدین کا احتساب - صفحہ 23
برائی کو دیکھے اس کو اپنے ہاتھ سے بدل دے، پس اگر [اس کی] طاقت نہ ہو تو اپنی زبان سے [بدل دے]، پس اگر [اس کی بھی] استطاعت نہ ہو تو اپنے دل سے، اور یہ سب سے کمزور ایمان ہے۔‘‘
اس حدیث شریف میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے برائی کے ارتکاب کرنے والے کی تخصیص نہیں فرمائی، بلکہ اس کا سرے سے ذکر ہی نہیں فرمایا۔برائی کا ارتکاب کرنے والا کوئی بھی ہو، والدین ہوں، یا کوئی اور دوسرا۔اہل ایمان اس بات کے پابند ہیں کہ وہ اپنی بساط کی حدود میں اس برائی کے خاتمے کے لیے کوشش کریں۔
ان چار دلائل کے علاوہ کتاب وسنت میں دیگر متعدد نصوص بھی سب لوگوں کے احتساب کی فرضیت پر دلالت کناں ہیں۔اور بلاشک وشبہ لوگوں میں والدین بھی شامل ہیں۔
علاوہ ازیں شریعت ِ اسلامیہ میں والدین کو احتساب سے مستثنیٰ کرنے کی کوئی دلیل نہیں، بلکہ اس کے برعکس قرآن وسنت میں ایسے بیشتر دلائل وشواہد موجود ہیں جو احتسابِ والدین کی اہمیت وضرورت کو مزید اجاگر اور واضح کرتے ہیں۔
(۲)
احتسابِ اقارب کے دلائل
سب لوگوں کے احتساب کی فرضیت پر دلالت کرنے والی نصوص شرعیہ کے علاوہ قرآن وسنت میں خصوصی طور پر احتسابِ اقارب کی فرضیت کے بھی متعدد دلائل موجود ہیں۔انہی میں سے تین دلائل ذیل میں بتوفیق ِ الٰہی پیش کیے جا رہے ہیں:
۱:اقارب کو ڈرانے کا حکمِ ربانی:
اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات کا حکم دیا کہ وہ اپنے قریبی رشتے