کتاب: والدین کا احتساب - صفحہ 22
ہم نے عرض کیا:’’لِمَنْ ؟‘‘ ’’کس کے لیے؟‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’لِلّٰہِ وَلِکِتَابِہِ وَلِرَسُوْلِہِ وَلِأَئِمَّۃِ الْمُسْلِمِیْنَ وَعَامَّتِہِمْ‘‘[1]
’’اللہ تعالیٰ، اس کی کتا ب، اس کے رسول - صلی اللہ علیہ وسلم - مسلمانوں کے اماموں اور عام مسلمانوں کے لیے۔‘‘
اس حدیث شریف کی روشنی میں اہل ِ دین میں شمولیت کے لیے ایک بنیادی بات عامۃ المسلمین کی خیر خواہی ہے، اور مسلمان والدین عام لوگوں سے خیر خواہی کے زیادہ حق دار ہیں، اور ان کی خیر خواہی میں سے یہ بات بھی ہے کہ انہیں نیکی چھوڑنے کی صورت میں، اس کے کرنے، اور برائی کرنے پر، اس کو ترک کرنے کی تلقین کی جائے۔
۴:برائی کو ختم کرنے کا ہر امتی کے لیے حکمِ مصطفوی صلی اللہ علیہ وسلم:
ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل ِ ایمان کو حکم دیا ہے کہ جہاں کہیں بھی وہ برائی کو دیکھیں تاحد ِ استطاعت اس کے ازالے کی کوشش کریں۔
امام مسلم نے حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے کہ انہوں نے کہا:
’’سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم یَقُوْلُ:’’مَنْ رَأَی مِنْکُمْ مُنْکَرًا فَلْیُغَیِّرْہُ بِیَدِہِ، فَإِنْ لَّمْ یَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِہِ، فَإِنْ لَّمْ یَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِہِ، وَذٰلِکَ أَضْعَفُ الْاِیْمَانِ‘‘[2]
’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا:’’تم میں سے جو کوئی
[1] صحیح مسلم، کتاب الإیمان، باب بیان أن الدین النصحیۃ، رقم الحدیث ۹۵ (۵۵)، ۱/۷۴
[2] المرجع السابق، باب بیان کون النہي عن المنکر من الإیمان…، رقم الحدیث ۷۸ (۴۹، ۱؍۶۹۔