کتاب: والدین کا احتساب - صفحہ 21
پر آپ کی بیعت کرتا ہوں۔‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ پر [یہ] شرط عائد کی:’’اور ہر مسلمان کی خیر خواہی۔‘‘
پس میں نے اس [شرط] پر آپ کی بیعت کی۔‘‘
بلا شک وشبہ سب لوگوں میں والدین بھی شامل ہیں جن کی خیر خواہی کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وقت ِ بیعت شرط عائد کی، بلکہ وہ خیر خواہی کے تمام لوگوں سے زیادہ حق دار ہیں۔اور والدین کی خیر خواہی میں یہ بات بھی شامل ہے کہ بھلائی کا کام چھوڑنے پر انہیں اس کے کرنے کا حکم دیا جائے، اور برائی کے ارتکاب سے انہیں روکا جائے۔امام نووی ؒ نے تحریر کیا ہے:’’[امر بالمعروف اور نہی عن المنکر] کے وجوب پر کتاب وسنت اور اجماع دلالت کناں ہیں، اور یہ [امر بالمعروف اور نہی عن المنکر] النصیحۃ [خیر خواہی] کا جزء ہے جو کہ دین [1]ہے۔‘‘ [2]
پس جس طرح خیر خواہی کی غرض سے دیگر لوگوں کو نیکی کا حکم دیا جائے گا، اور برائی سے روکا جائے گا، اسی طرح والدین کا بھی احتساب کیا جائے گا۔
۳:دین کا تمام مسلمانوں کی خیر خواہی کا نام ہونا:
ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو خبر دی ہے کہ دین اللہ تعالیٰ، اس کی کتاب، اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم، مسلمانوں کے حکمرانوں اور عامۃ المسلمین کے لیے خیر خواہی ہی کا نام ہے۔
امام مسلم ؒ نے حضرت تمیم داری رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’اَلدِّیْنُ النَّصِیْحَۃُ‘‘ ’’دین خیر خواہی ہی ہے۔‘‘
[1] امام نووی کا اشارہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد گرامی [الدین النصیحۃ] [ترجمہ:دین خیر خواہی ہی کا نام ہے] کی طرف ہے۔اس حدیث شریف کا تفصیلی ذکر دلیل نمبر ۳ میں بفضل رب العزت کیا جا رہا ہے۔
[2] شرح النووي ۲/۲۲۔