کتاب: والدین کا احتساب - صفحہ 20
بِأَمْرِہِمْ بِالْمَعْرُوْفِ وَنَہْیِہِمْ عَنِ الْمُنْکَرِ‘‘[1]
’ ’اللہ سبحانہ نے بیان فرمایا کہ یہ امت لوگوں کے لیے سب امتوں سے بہتر ہے، وہ لوگوں کو سب سے زیادہ نفع پہنچانے والی، اور ان کے ساتھ سب سے زیادہ احسان کرنے والی ہے، وہ لوگوں کو بھلائی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے کے سبب ان کے لیے سراپا خیر اور مجسمہ نفع ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے اس آیت ِ کریمہ میں ان لوگوں کی تخصیص نہیں فرمائی جنہیں یہ امت [امر بالمعروف اور نہی عن المنکر] کے ذریعے فیض پہنچاتی ہے، بلکہ جس طرح یہ امت دیگر لوگوں کو نیکی کا حکم دے کر، اور برائی سے منع کر کے نفع پہنچاتی ہے، اسی طرح احتساب کے ذریعے والدین کو فیض یاب کرتی ہے۔
۲:بیعت کی ایک شرط ہر مسلمان کی خیر خواہی:
حضرت جریر رضی اللہ عنہ نے اسلام لانے کی غرض سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں درخواست کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ شرط عائد کی کہ وہ ہر مسلمان کی خیر خواہی کریں گے۔
امام بخاری ؒ نے حضرت جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے کہ انہوں نے بیان کیا کہ:
’’أَمَّا بَعْدُ فَإِنِّي أَتَیْتُ النَّبِيَّ صلی اللّٰه علیہ وسلم قُلْتُ:’’أُبَایِعُکَ عَلَی الإِسْلاَمِ۔‘‘
فَشَرَطَ عَلَيَّ:’’وَالنُّصْحِ لِکُلِّ مُسْلِمٍ۔‘‘
فَبَایَعْتُہُ عَلَی ہٰذَا ‘‘[2]
’’اما بعد، یقینا میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہو کر عرض کی:’’میں اسلام
[1] الأمر بالمعروف والنہي عن المنکر ص ۱۲۔
[2] صحیح البخاري، کتاب الإیمان، باب قول النبي صلی اللہ علیہ وسلم:’’الدین النصیحۃ ﷲ ولرسولہ ولأئمۃ المسلمین وعامتہم‘‘، وقولہ تعالی:{إِذَا نَصَحُوْا لِلّٰہِ وَرَسُوْلِہِٓ}، رقم الحدیث ۵۸، ۱/۱۳۹۔