کتاب: والدین کا احتساب - صفحہ 103
الْوَاجِبَاتِ أَوِ الْمُسْتَحَبَّاتِ لاَبُدَّ أَنْ تَکُوْنَ الْمَصْلَحَۃُ فِیْہَا رَاجِحَۃً عَلَی الْمَفْسَدَۃِ إِذْ بِہٰذَا بُعِثْتِ الرُّسُلُ، وَنَزَلَتِ الْکُتُبُ، وَاللّٰہ ُ لاَ یُحِبُّ الْفَسَادَ۔فَحَیْثُ کَانَتْ مَفْسَدَۃُ الأَمْرِ وَالنَّہْيِ أَعْظَمَ مِنْ مَصْلَحَۃٍ لَمْ یَکُنْ مِمَّا أَمَرَ اللّٰہ ُ بِہٖ، وَإِنْ کَانَ قَدْ تُرِکَ وَاجِبٌ وَفُعِلَ مُحَرَّمٌ۔‘‘ [1] ’’چونکہ امر المعروف اور نہی عن المنکر سب سے عظیم واجبات یا مستحبات میں سے ہے، اس لیے ضروری ہے کہ اس میں مصلحت، خرابی پر غالب ہو، کیونکہ اسی کے ساتھ رسولوں کی بعثت ہوئی، اور کتابوں کا نزول ہوا، اور اللہ تعالیٰ فساد کو پسند نہیں کرتا۔جہاں کہیں بھی امر ونہی کی [وجہ سے پیدا ہونے والی] خرابی زیادہ ہو گی۔وہاں اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے قائم کرنے کا حکم نہ ہو گا۔اگرچہ ایسی حالت میں واجب کو چھوڑا جائے اور حرام کا ارتکاب ہو۔‘‘ اسی سلسلے میں امام ابن قیم ؒنے قلم بند کیا ہے: ’’فَإِذَا کَانَ إِنْکَارُ الْمُنْکَرِ یَسْتَلْزِمُ مَا ہُوَ أَنْکَرُ مِنْہُ وَأَبْغَضُ إِلَی اللّٰہِ وَرَسُوْلِہِ فَإِنَّہُ لاَ یَسُوْغُ إِنْکَارُہُ،وَإِنْ کَانَ اللّٰہُ یُبْغِضُہُ وَیَمْقُتُ أَہْلَہُ۔ وَہٰذَا کَالإِنْکَارِ عَلَی الْمُلُوْکِ وَالْوُلاَۃِ بِالْخُرُوْجِ عَلَیْہِمْ، فَإِنَّہُ أَسَاسُ کُلِّ شَرٍّ وَفِتْنَۃٍ إِلٰی آخِرِ الدَّہْرِ۔‘‘[2] ’’اگر کسی ایک برائی سے منع کرنے کی وجہ سے اس سے زیادہ بڑی برائی اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ناپسندیدہ چیز پیدا ہو، تو ایسی برائی سے روکنا جائز نہ ہو گا، اگرچہ وہ برائی اللہ تعالیٰ اور اس کے بندوں کے ہاں
[1] ملاحظہ ہو:الأمر بالمعروف والنہي عن المنکر ص ۱۷۔ [2] ملاحظہ ہو:إعلام الموقعین ۳/۱۵۔