کتاب: والدین کا احتساب - صفحہ 102
کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ میں متعدد مثالیں موجود ہیں، جن میں ہمارے لیے بہترین راہ نمائی موجود ہے۔کتنے ہی مواقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے احتساب کی وجہ سے پیدا ہونے والی متوقع خرابیوں اور مفاسد کے پیش نظر برائی کے ازالے کے لیے قوت استعمال نہ فرمائی۔انہی شواہد میں سے سات درج ذیل ہیں:
۱:… لوگوں کے اسلام سے بدظن ہونے کے خدشہ کے پیش نظر باوجود استحقاق کے عبداللہ بن ابی کو قتل نہ کیا۔
۲:… لوگوں کے اسلام سے متنفر ہونے کے اندیشہ کی بنا پر اپنی شان میں مقام جعرانہ پر گستاخی کرنے والے کا سر قلم نہ کیا۔
۳:… لوگوں کے اسلام سے دور ہونے کے خوف کے سبب اپنی شان میں گستاخی پر عبداللہ بن ذی الخویصرہ کی گردن نہ اڑائی۔
۴:… دشمن کے ساتھ مل جانے کے اندیشہ کے سبب دورانِ جنگ چور کا ہاتھ کاٹنے سے منع فرما دیا۔
۵:… قریش کو اسلام کے متعلق بدگمانی سے بچانے کی غرض سے خانہ کعبہ کو سابقہ بنیادوں پر از سر نو تعمیر نہ کیا۔
۶:… بدو کو مسجد میں پیشاب کرتے ہوئے چھوڑ دیا۔
۷:… نماز کے موخر کرنے والے ائمہ کے خلاف بغاوت سے منع فرما دیا۔[1]
اسی بات کی تاکید متعدد علمائے امت نے بھی کی ہے۔مثال کے طور پر اس بارے میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ ؒ نے تحریر کیا ہے:
’’وَإِذَا کَانَ الأَمْرُ بِالْمَعْرُوْفِ وَالنَّہْيُ عَنِ الْمُنْکَرِ مِنْ أَعْظَمِ
[1] ان واقعات کے حوالہ جات اور ان پر تعلیق کے لیے ملاحظہ ہو:راقم السطور کی کتاب:من صفات الداعیۃ:مراعاۃ أحوال الخاطبین ص ۹۱ - ۱۰۰