کتاب: اصول السنہ - صفحہ 74
[1]
[1] سے خارج کرتے ہیں ۔(لمعۃ الاعتقاد رقم:۸۳)
امام ابوالحسن الاشعری نے کہا کہ اور ہم اہل قبلہ کی تکفیر نہیں کرتے جنہوں نے صرف کبیرہ گناہ کا ارتکاب کیا ہے۔(الابانۃ رقم:۴۳)
امام بربہاری نے کہا کہ کوئی مسلمان اس وقت تک اسلام سے خارج نہیں ہوجب تک وہ قرآن مجید کی کسی ایک آیت یا رسول اللہ سے ثابت شدہ کسی ایک حدیث کا انکار نہ کر ے ۔یا غیر اللہ کے لیے ذبح کرے یا اس کی عبادت کرے ۔جس نے یہ کام کیا تم پر واجب ہے کہ تم اسے (اتمام حجت کے بعد)اسلام سے خارج کر دو ۔جس نے ایسا کام نہیں کیا وہ نام کے اعتبار سے مومن اور مسلمان ہے۔حقیقت کے اعتبار سے نہیں ۔(کیونکہ کسی کے ایمان کی حقیقت کو اللہ تعالیٰ ہی جانتاہے )(شرح السنہ ،رقم: ۶۹)
امام طحاوی نے کہا کہ اہل قبلہ میں کسی شخص کو کسی گناہ کے سبب ہم کافر نہیں کہتے جب تک وہ گناہ کے کلمہ کو حلا ل نہ جانے نیز ہم یہ بھی نہیں کہتے کہ ایمان کے ساتھ گناہ کچھ ضرر رساں نہیں ۔
اس کی شرح کرتے ہوئے امام ابن ابی العز لکھتے ہیں کہ تین وجہ ہیں کہ اکثر ائمہ مطلق طور پر یہ بات نہیں کہتے کہ ہم خوارج کی طرح کسی شخص کو کسی گناہ کی وجہ سے کافر نہیں کہتے حالانکہ نص عام اور عمومی نفی میں واضح فرق ہے اور جو واجب ہے وہ عمومی نفی ہے ۔تاکہ خوارج کا قول رد ہو جائے توہر طرح کے گناہ کے مرتکب کو کافر کہتے ہیں ۔اس وجہ سے طحاوی نے اس کو مقید کیا ہے جب تک حلال نہ سمجھے ۔(شرح العقیدۃ الطحاویۃ ،ص :ـ۳۱۶۔۳۱۷)