کتاب: اصول السنہ - صفحہ 71
خلاف عقیدہ رکھے گا تو وہ اللہ تعالیٰ کو معطل تسلیم کرنے والا جہمی فرقے سے ہوگا ۔[1]
[1] م نے یہاں اختصار سے کام لیا ہے کیونکہ ہم نے اپنی کتاب شرح رسالہ نجاتیہ میں اس مسئلے پر سیر حاصل بحث کی ہے ۔والحمدللّٰہ  اس گروہ کا بانی جھم بن صفوان تھا اس کے مختصر حالات یہ ہیں اس کی کنیت ابومحرز الراسبی تھی اس نے سمرقند ،خراسان میں پرورش پائی پھر ایک عرصہ ترمذ میں ٹھہرا یہ بدعتی اور گمراہ انسان تھا اس نے صفات کا انکار کیا اور خلق قرآن کا قائل تھا اور فرقہ جہمیہ کا بانی تھا اور کہتا تھا کہ اللہ تعالیٰ ہر جگہ موجود ہے اور ایمان صرف دل سے تصدیق کرنے کو مانتا تھا خواہ انسان زبان سے کفر ہی کرتا رہے ۔ اس گمراہ انسان کو سلیم بن احوز نے ۱۲۸ھ کو مقام مرو پراس وجہ سے قتل کر دیا کہ اس نے کہا کہ موسی علیہ السلام سے اللہ تعالیٰ نے کلام نہیں کیا ۔ اس کے نظریات میں سے ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات کا صرف وجود ہے اس کی کوئی صفت نہیں ہے اور وہ کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ تمام کائنات میں حلول کئے ہوئے ہے ،ظاہر ہے کہ یہ نظریہ عیسائیوں کے نظریہ سے بھی زیادہ بدتر ہے ۔امام ابن القیم رحمہ اللہ اپنے قصیدہ نونیہ (۲۴)میں جہمیوں کی اس گمراہی کی ایک عجیب انداز میں خبر لی فرماتے ہیں : وکذلک الجھمی قیل لہ استوی فابی وزاد الحرف للنکران ’’اور اسی طرح جہمیوں نے استوی میں ایک حرف لام زائد کرکے استولی بنا ڈالا ۔‘‘ (