کتاب: اصول السنہ - صفحہ 70
[1]
[1] واضح کردی گئی ہے اور یقیناً ہم جانتے ہیں کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ عرش پر بلند ہے اور اس نے ہمیں یہ خبر نہیں دی کہ وہ کیسے بلند ہیں ۔‘‘ عبد اللہ بن مبارک فرماتے ہیں : ’’ہم اپنے رب کو ساتوں آسمانوں کے اوپر پہچانتے ہیں کہ وہ عرش پر مستوی ہیں ۔اس سے اسکی مخلوق الگ ہے اور ہم جھمیہ کی طرح نہیں کہتے کہ وہ یہاں ہے اور انہوں نے زمین کی طرف اشارہ کیا ۔‘‘ (صحیح الی ابن المبارک ۔ السنۃ لعبد اللہ بن احمد‘‘(۱؍۱۱۱)’’الرد علی الجھیہ لابی سعید الدارمی ‘‘(۶۷‘۱۶۲)خلق افعال العباد للبخاری(ص:۸)الرد علی المریسی (ص:۱۰۳)الشرح والابانۃ لابن بطۃ (ص:۲۲۲)الاسماء والصفات للبیہقی ص:۴۲۷،۵۳۸)اس کو امام ابن تیمیہ (الحمویۃ ص:۴۱)اور ابن قیم (اجتماع الجیوش الاسلامیۃ ص:۸۴)نے صحیح کہا ہے اور یہی بات امام احمد بن حنبل سے پوچھی گئی تو انہوں نے کہا کہ میں بھی یہی کہتا ہوں ۔(روی عنہ تلمیذہ ابوبکر الاثرم )فتاوی ابن تیمیہ:۵؍۵۲،اثبات صفۃ العلو لابن قدامہ (ص:۱۰۰) اللہ تعالیٰ کا عرش پر مستوی ہونا ایک مسلمہ حقیقت ہے جو کہ قرآن و سنت و اجماع ائمہ سلف و اصحاب الحدیث سے ثابت ہے اور اللہ تعالیٰ کے لیے صفت علوثابت ہے دیکھیے: ’’اثبات صفۃ العلو لابن قدامہ،العلو للذھبی۔اور اجتماع جیوش الاسلامیہ لابن قیم‘‘ ان کتب میں بہت زیادہ دلائل کے ساتھ اس مسئلہ کو ثابت کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ عرش پر مستوی ہے ۔نیز دیکھیں (بیان تلبیس الجہمیہ لابن تیمیہ ج۱ص۱۲۷،۵۸۰۔۵۵۸،شرح اصول الاعتقاد للالکائی ج۳ص۳۸۷۔۴۰۲ )