کتاب: اصول السنہ - صفحہ 69
[1]
[1] کے اور یہ قول اہل علم کاہے ،یہ اہل السنۃ والجماعۃ میں سے ہیں ۔لیکن جہمیہ ان روایات کی مخالفت کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ تشبیہ ہے ۔
( سنن الترمذی ج۴ص۶۹۲)نیز دیکھیں :(مختصر الصواعق المرسلہ :۱؍۱۰۔۹۱،ذم التاویل لابن قدامہ ،الاکلیل لابن تیمیہ ،شرح اصول الاعتقاد :۳؍۴۳۰۔۴۳۳،عقیدہ امام ابن قدامہ و کتاب الصفات لعبدالغنی المقدسی رقم:۱۲۹)
ایک آدمی مالک بن انس کے پاس آیا،وہ ان سے اس آیت کے بارے میں سوال کرنے لگا ’’﴿ الرَّحْمَنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوَى ﴾ [طہ:۵]
استوٰٰ ی کیسے ہے؟ جعفر بن عبد اللہ کہتے ہیں میں نے ان کو اتنی غضبناک حالت میں دیکھا جتنی غضبناک حالت میں وہ کبھی بھی نہیں دیکھے گئے تھے انھیں پسینہ آگیا اور لوگ گردنوں کو بلند کرنے لگے پس وہ حکم کا انتظار کرنے لگے اس معاملے کے بارے میں پھر کچھ دیر بعد ان سے غصہ اور پسینہ ختم ہوا تو انہوں نے فرمایا۔’’کیفیت مجھول ہے اور استواء معلوم ہے اور ا س پر ایمان لانا واجب ہے اور استواء کے بارے میں سوال کرنا بدعت ہے اور یقیناً میں ڈرتا ہوں کہ تو گمراہ ہوجائے گا پھر اس کے بارے میں حکم دیا گیا پس اس کو مجلس سے نکال دیا گیا ۔
(اسنادہ حسن : الرد علی الجھمیہ للدارمی ‘‘(۱۰۴)‘الحلیہ لابی نعیم ‘(۶؍۳۲۶، ۳۲۵)الاسماء والصفات للبیہقی (۸۶۶،۸۶۷)حافظ ذہبی نے کہا کہ یہ امام مالک سے ثابت ہے ۔(العلو ۱۰۴)اور ابن حجر نے اس کی سند کو عمدہ کہا ہے۔(فتح الباری :۱۳؍۴۰۶۔۴۰۷)
اور ابو علی الحسین بن فضل الجبلی سے استواء کے بارے میں سوال کیا گیا، یا اس کو کہا گیا کہ استوی علی العرش کا کیا معنی ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا «
’’ میں غیب کی خبروں کو نہیں جانتا مگر اتنی مقدار کے جتنی ہم پر