کتاب: اصول السنہ - صفحہ 62
[1]
[1] خلفائے راشدین کو ہوا تو تمہیں کیسے اس کا علم ہوگیا ؟ ا ابن ابی دواد سے اس کا کچھ جواب نہ بن پڑا۔ واثق باللہ وہاں سے اٹھ کھڑا ہوا اور دوسرے کمرہ میں چلا گیا وہ زبان سے باربار یہ فقرہ دہراتا تھا کہ جس بات کا علم نہ اللہ کے رسول کو ہوا نہ خلفائے راشدین کو ہوا اس کا علم تجھے کیسے ہوگیا ؟ مجلس برخاست کردی گئی خلیفہ نے اس بزرگ کو عزت و احترام سے رخصت کیا اور اس کے بعد امام احمد بن حنبل پر سختیاں بند کردیں اور حالات کا پانسا پلٹ گیا اور آہستہ آہستہ مسئلہ خلق قرآن کا فتنہ جس نے بے شمار مسلمانوں کی ناحق جان لی تھی، ختم ہوگیا۔(تفسیر تیسیر القرآن الکہف،آیت۲۲کی تفسیر کے تحت) بطور تنبیہ عرض ہے کہ امین اوکاڑوی صاحب لکھتے ہیں : ’’ امام احمد مزاجا معتدل تھے مگر فتنہ خلق قرآن کی آزمائش میں آپ اور آپ کے ساتھیوں پر جن قاضیوں نے تشدد کیا وہ عقیدتا معتزلی اور فروعا حنفی تھے ۔‘‘ (تجلیات صفدر :۲؍۶۸) امام المزنی نے کہا : ’’ قرآن اللہ تعالیٰ کا کلام ہے ۔وہ اس سے شروع ہوا وہ غیر مخلوق ہے اور فنانہیں ہوگا۔‘‘(شرح السنۃ رقم:۷ص۸۱) امام بربہاری نے کہا : ’’ جس نے قرآن کے ایک حرف میں شک کیا یا جھٹلایا یا جو کچھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آیا ہے تووہ اللہ تعالیٰ سے ایسے ملے گا جس نے حق کو جھٹلایا ہوگا ۔اللہ سے ڈرو اور ایمان کا حساب لو۔‘‘(شرح السنۃ رقم:۱۶۷)(