کتاب: اصول السنہ - صفحہ 61
[1]
[1] الفاظ کا جامہ پہنا دیتے تھے۔ مامون الرشید کے دور میں حکومت کا مسلک اعتزال تھا۔ لہذا یہ مسئلہ شدت اختیار کر گیا۔ اور علمائے اسلام سے جبراً یہ اقرار لیا گیا کہ قرآن کلام قدیم نہیں بلکہ مخلوق ہے بہت سے علماء نے انکار کر دیا اور قید وبند کی مصیبتوں میں گرفتار ہوئے۔ امام احمد بن حنبل پر بھی اس سلسلے میں بڑے ظلم ڈھائے گئے لیکن وہ اپنے نظرئیے پر قائم رہے۔ مسلمانوں کا عام عقیدہ یہی ہے کہ قرآن چونکہ کلام الہی ہے اس لیے قدیم ہے۔ مسئلہ خلق قرآن ہے جو معتزلہ نے پیدا کیا تھا اور وہ قرآن کو غیر مخلوق سمجھنے والوں کو مشرک قرار دیتے تھے۔ خلفائے بنو عباس بالخصوص مامون الرشید معتزلہ کے عقائد سے شدید متاثر تھا۔ اس نے بہت سے علماء کو محض اس بنا پر قتل کردیا تھا کہ وہ قرآن کو غیر مخلوق سمجھتے تھے اور امام احمدبن حنبل نے اسی مسئلہ کی خاطر مدتوں قید و بند اور مارپیٹ کی سختیاں جھیلی تھیں ۔ بالآخر خلیفہ واثق باللہ کے عہد میں ایک سفید ریش بزرگ خلیفہ کے پاس آیا اور درباری معتزلی عالم ابن ابی دواد سے منا ظرہ کی اجازت طلب کی۔ خلیفہ نے اجازت دے دی تو اس بزرگ نے ابن ابی دواد سے کہا : میں ایک سادہ سی بات کہتا ہوں جس بات کی طرف نہ اللہ کے رسول نے دعوت دی ااور نہ خلفائے راشدین نے، تم اس کی طرف لوگوں کو دعوت دیتے ہو اور اسے منوانے کے لیے زبردستی سے کام لیتے ہو تو اب دو ہی باتیں ہیں ،ایک یہ کہ ان جلیل القدر ہستیوں کو اس مسئلہ کا علم تھا لیکن انہوں نے سکوت اختیار فرمایا تو تمہیں بھی سکوت اختیار کرنا چاہیے۔ اور اگر تم کہتے ہو کہ ان کو علم نہ تھا تو اے گستاخ ابن گستاخ ! ذرا سوچ جس بات کا علم نہ اللہ کے رسول کو تھا اور نہ (