کتاب: اصول السنہ - صفحہ 54
[1]
[1] طعن کرتا ہو تو سمجھ لو کہ وہ شخص برا اور خواہش نفسانی کا پیرو ہے ۔کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ جب میرے صحابہ کا تذکرہ ہو تو اپنے آپ کو روک لو۔اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وفات پا جانے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ سے کیا لغزشیں ہو سکتی تھیں ۔۔۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بارے میں بھلا ہی کہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’میرے صحابہ کو چھوڑ دو اور ان کے متعلق بھلا ہی کہو اور تم ان کی لغزشوں اور آپسی مشاجرات کے متعلق بحث نہ کرو اور نہ ہی اس چیز کی بحث کرو جس کا تمہارے پاس علم نہ ہو ۔اگرکوئی ان باتوں کو بیان بھی کرے تو تم نہ سنو۔کیونکہ اگر تم سنوں گے تو تمہارا دل بھی محفوظ نہیں رہے گا ۔‘‘ (ان ا حادیث کی تفصیل کے لیے دیکھیے الصحیحہ ۲۸۴۰،صحیح الجامع رقم:۳۳۸۰،بزار فی کشف الاستار :۳؍۲۹۰،اور دیکھیے جزء فی طریق حدیث لا تسبوا اصحابی ص:۷۰)(شرح السنۃ للبربہاری رقم:۱۳۷) اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’ بہترین لوگ میرے دور کے لوگ ہیں ۔‘‘(صحیح البخاری :۳۶۵۱،صحیح مسلم:۲۵۳۳) امام ابن قدامہ نے کہا : ’’ اور یہ بات بھی دین میں سے ہے کہ صحابہ کرام سے عقیدت و محبت رکھی جائے ان کے محاسن بیان کیے جائیں ،ان کے لیے اللہ سے رحمت و بخشش کی دعا کی جائے ۔ ان کی بشری کوتاہیوں کے ذکر سے اجتناب کیا جائے۔اور ان کے مابین جو اختلاف ہوئے ان کے بارے میں خاموشی اختیار کی جائے ۔اور ان کی سب پر فضیلت اور اسلام قبول کرنے میں سبقت کو تسلیم کیا جائے ۔‘‘ (لمعۃ الاعتقاد رقم:۸۷ ص:۱۵۰)(