کتاب: اصول السنہ - صفحہ 43
[1]
[1] اس سلسلے میں حافظ ابن حجر نے امام نووی کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ انتہائی ظاہر اور محتاط قول کے مطابق تصدیق،جو دل کا کام ہے ،میں کثرت ِنظرکی وجہ سے کمی بیشی واقع ہوجاتی ہے ،اسی لیے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا ایمان دوسروں کے ایمان سے زیادہ قوی تھا ۔لیکن ان کے ایمان میں کسی شبہ کا کوئی شائبہ یا امکان نہیں تھا ،ہماری اس بات کی تائید اس بات سے ہوتی ہے ۔
کہ ہر شخص بذات خود یہ بات جانتا ہے کہ اس کے دل کی کیفیت میں تبدیلی ،تفاضل یا کمی بیشی آتی رہتی ہے حتی کہ بعض اوقات دل زیادہ دولتِ یقین و اخلاص و توکل سے معمور ہوتا ہے اور بعض حالات میں یہ کیفیت برقرارنہیں رہتی اسی طرح تصدیق و معرفت میں بھی دلائل کی قوت و کثرت کی بناء پر کمی بیشی واقع ہوتی رہتی ہے ۔‘‘(فتح الباری:۱؍۴۶)
اور جیسا کہ امام حمیدی نے کہا:ایمان قول و عمل ہے ۔‘‘اور ایمان کی تعریف سے عمل کو خارج کرنے والے دو گروہ ہیں ۱:مرجئہ الغلاۃ ۲:مرجئہ الفقھاء ۔
۱:مرجئہ الغلاۃ کا کہنا ہے کہ ہر وہ شخص جو ایمان قبول کرلے ،کامل الایمان سے ہوتا ہے یعنی ایمان کی موجودگی میں کوئی گناہ نقصان نہیں دیتا ۔یہ قول باطل و کفر ہے ۔
۲:مرجئہ الفقہاء اکثر اہل کوفہ ہیں اور یہ بھی عمل کو ایمان میں شامل نہیں کرتے ۔ان اور مرجئہ الغلاۃ میں یہ فرق ہے کہ مرجئہ الفقہاء ایمان کی موجودگی میں گناہ نقصان نہیں دیتا کے مخالف ہیں ۔