کتاب: اصول السنہ - صفحہ 40
[1]
[1] مقدرات اللہ ہی کے حکم و تقدیر سے واقع ہوتے ہیں ۔کوئی چیز تقدیر کو ٹالنے والی ہے نہ تقدیر سے بچنے کی کوئی تدبیر ہے ۔ہر شخص کو وہی بات پیش آتی ہے جوتوشۂ تقدیر ہے۔بالفرض تمام مخلوقات اس امر پر اتفاق کر لیں کہ وہ کوشش کرکے کسی کو ایسا فائدہ پہنچا دیں جو اللہ نے اس کے مقدر میں نہیں لکھاتوانہیں اس معاملے میں کسی طرح کامیابی ممکن نہ ہو گی۔ایسے ہی اگر وہ سب مل کر خلاف ِتقدیر کسی کو نقصان پہچانا چاہیں توان کے ایسا کرنے سے کسی کا بال بھی بیکا نہ ہوگا ۔اللہ تعالیٰ اپنی مشیت و ارادے سے جو ضرر و تکلیف بندے پر نازل کرتا ہے ،اللہ کے سوا اسے کوئی دور نہیں کر سکتا اور جس کی بہتری چاہتا ہے اس کو رد کر دینا بھی کسی کے اختیار میں نہیں ہے ۔‘‘
(سائق العباد الی صحۃ الاعتقاد ۔مجموعہ رسائل عقیدہ : (۲؍۲۵۶)
نیز نواب صاحب نے مسئلہ تقدیر پر اپنی ایک دوسری کتاب ’’دعوۃ الداع الی ایثار الاتباع علی الابتداع‘‘میں مفصل بحث کی ہے دیکھئے ’’مجموعہ رسائل عقیدہ: (۲؍۱۵۵۔۱۶۸)
محدثین نے اس پر مستقل کتب لکھی ہیں مثلا: عبداللہ بن وھب بن مسلم القرشی کی’’ کتاب القدر وما روی فی ذلک من الآثار ‘‘امام بیھقی کی ’’القضاء والقدر ‘‘امام فریابی کی ’’کتاب القدر‘‘امام ابن تیمیہ کی ’’الاحتجاج بالقدر‘‘اور ان کی ’’القصیدۃ التائیۃ فی القدر‘‘۔