کتاب: اصول السنہ - صفحہ 38
اس کوہر گز حاصل ہونے والا نہیں تھا[1]اور یہ کہ تمام امور اللہ تعالیٰ کی قضاء وقدر سے ہیں ۔[2]
[1] میں ہے ۔اس میں یزید الرقاشی ضعیف ہے (التقریب:۷۶۸۳)بلکہ امام نسائی نے اس کو متروک اور امام احمد نے منکر الحدیث کہا ہے (میزان الاعتدال:۴؍۴۱۸)نیز اس روایت کو الشیخ یاسین الفادانی نے ورقات (مجموعۃ المسلسلات والاوائل الاسانید العالیۃ:ص ۶،۷) میں اس کو مسند فردوس للدیلمی کی طرف منسوب کیا ہے۔ ’’المعجم الاوسط للطبرانی‘‘(۳؍۱۱۱)اس کی سند میں عمر بن الصبح سخت ضعیف راوی ہے (مجمع الزوائد :۷؍۳۹۷) امام ذھبی نے کہا :’’کلام صحیح لکن الحدیث واہ لمکان الرقاشی‘‘یہ بات درست ہے لیکن یہ روایت سخت کمزور ہے رقاشی کی وجہ سے ۔(السیر:۸؍۲۸۷) امام احمد نے بھی اپنے باتوں میں حلوہ و مرہ کا ذکر کیا ہے اور اس کو کسی حدیث کی طرف نسبت نہیں کیا ۔  اس کی دلیل سنن الترمذی (رقم:۲۵۱۶ )اور امام ترمذی نے اس کو حسن صحیح کہا ہے)میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر ساری امت جمع ہو کر تجھے کوئی نفع دینا چاہے تجھیں نفع نہیں دے سکتی مگر جو اللہ تعالیٰ نے تیرے لیے لکھا ہے اور اگر وہ تجھے نقصان دینا چاہیں تجھے نقصان نہیں دے سکتے مگر جو اللہ تعالیٰ نے تیرے لیے لکھا ہے ۔۔۔الحدیث [2] اللہ تعالیٰ نے فرمایا: (