کتاب: اصول السنہ - صفحہ 36
[1]
[1] :تقدیر عمری ۔جو رحم مادر میں جب بچہ ایک سو بیس دن کا ہوتا ہے اس وقت جو لکھی جاتی ہے۔[النجم:۳۲]
۴:حولی فی لیلۃ القدر۔جو لیلۃ القدر کو لکھی جاتی ہے
۵:تقدیر یومی۔ اس میں ہر چیز کو اس کی اصل جگہ پر رکھا جاتا ہے ۔ارشاد باری تعالی ہے :
﴿ كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ ﴾ [الرحمن:۲۹]
’’وہ ہر روز کام میں مصروف ہوتا ہے۔‘‘
نیز اس کی دلیل صحیح مسلم(۸) میں حدیث جبریل ہے۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جبریل امین علیہ السلام نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ ایمان کیا ہے ؟توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ ایمان یہ ہے کہ تواللہ تعالی،اس کے فرشتوں ،اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے اور یوم آخرت اور تقدیر پر، چاہے وہ بھلی ہو یا بری ،پر ایمان لے آئے ۔جبریل علیہ السلام نے کہا کہ آپ نے سچ کہا ۔نیز دیکھیں حدیث ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ
(صحیح البخاری :۵۰،صحیح مسلم:۵،۹)
نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمینوں کی تخلیق سے پچاس ہزار سال قبل مخلوق کی تقدیر مقرر فرمادی ۔(صحیح مسلم:۲۶۵۳، نیز دیکھیں لمعۃ الاعتقاد رقم:۴۸۔۴۳)
مسئلہ تقدیر پر ایک اور حدیث پیش خدمت ہے ابن دیلمی کہتے ہیں کہ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے ملا اور ان سے سوال کیا جس پر انھوں نے کہا(