کتاب: اصول تفسیر - صفحہ 91
’’ اللّٰه ربي وبہ أحلف لینصرن المؤمنین ۔‘‘
’’اللہ میرا رب ہے ‘اور میں اسی کی قسم اٹھاتا ہوں ! وہ ضرور مؤمنین کی مدد کرے گا۔‘‘
تاء : جیسے کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
{ تَاللّٰهِ لَتُسْأَلُنَّ عَمَّا کُنْتُمْ تَفْتَرُونَ} (النحل:۵۶)
’’ اللہ کی قسم! جو تم افتراء کرتے ہو اس کی تم سے ضرور پرسش ہو گی۔‘‘
اس کے ساتھ بھی عامل ( قسم اٹھانے والے )کو وجوباً حذف کیا جاتاہے ۔اور اس کے ساتھ سوائے لفظ جلالہ’’ اللہ ‘‘(اسم ذات )کے کوئی اور اسم جیسے رب وغیرہ نہیں آسکتا ۔ یہ جائز نہیں کہ کوئی کہے:
’’ترب الکعبہ لأحجن إن شاء اللّٰه۔‘‘
’’مجھے رب کعبہ کی قسم ہے ! میں ان شاء اللہ ضرور حج کروں گا۔‘‘
اور مقسم بہ ( جس کی قسم اٹھائی جارہی ہو) کا ذکر کرنا ہی اصلی صورت ہے جیسے سابقہ مثالوں میں بیان کیاگیاہے ۔اور بسا اوقات اکیلے مقسم بہ کو حذف کیا جاتا ہے ‘ جیسے آپ کا یہ قول :
’’أحلف علیک لتجتہدن۔‘‘
’’میں آپ کو قسم دیتا ہوں کہ آپ ضرور محنت کریں گے۔‘‘
کبھی یہ عامل کے ساتھ حذف کیا جاتا ہے۔اور ایسا ہونا بہت زیادہ ہے ، جیسے فرمان الٰہی ہے :
{ثُمَّ لَتُسْأَلُنَّ یَوْمَئِذٍ عَنِ النَّعِیْمِ } (التکاثر:۸)
’’ پھر اس روز تم سے (شکرِ) نعمت کے بارے میں پرسش ہو گی۔‘‘
اصل میں مقسم علیہ کو ذکر کرنا چاہیے، یہ قرآن میں بہت زیادہ ہے، فرمان الٰہی ہے:
{قُلْ بَلَی وَرَبِّیْ لَتُبْعَثُنَّ} (التغابن:۷)
’’کہہ دو کہ ہاں ہاں میرے پروردگار کی قسم! تم ضرور اٹھائے جاؤ گے۔‘‘
اور کبھی اسے جوازاً حذف بھی کیا جاتا ہے ‘ جیسا کہ فرمان ِالٰہی ہے :