کتاب: اصول تفسیر - صفحہ 90
قسم
لغت میں قسم سے مراد : ق اور سین پر زبر کے ساتھ ’’قَسَمْ‘‘ اس کا معنی ہے حلف ۔ مراد یہ ہے کہ : کسی معظم کا نام لے کر (مخصوص صیغہ کیساتھ)کسی چیز کی تاکید کرنا ۔اس کے لیے تین حرف ہیں :
واؤ :جیسے کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
{ فَوَرَبِّ السَّمَائِ وَالْأَرْضِ إِنَّہُ لَحَقٌّ } (الذرایات:۲۳)
’’ تو آسمانوں اور زمین کے مالک کی قسم! یہ (اسی طرح) قابلِ یقین ہے ۔‘‘
اس کیساتھ عامل ( قسم اٹھانے والے )کو وجوباً حذف کیا جاتا ہے ۔ اور اس کے ساتھ صرف اسم ظاہر ہی ملا ہوا ہوتا ہے۔
باء : جیسے کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
{لَا أُقْسِمُ بِیَوْمِ الْقِیَامَۃِ } (القیامۃ:۱)
’’میں قسم کھاتا ہوں روزِ قیامت کی۔‘‘
اس کے ساتھ عامل (قسم اٹھانے والے )کا ذکر کرنا جائز ہے جیسے اس مثال میں ہے۔ اور عامل (قسم اٹھانے والے ) کوحذف کرنا بھی جائز ہے ، جیسے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
{ قَالَ فَبِعِزَّتِکَ لَأُغْوِیَنَّہُمْ أَجْمَعِیْنَ} (ص:۸۲)
’’ کہنے لگا : مجھے تیری عزت کی قسم! میں ان سب کو بہکاتا رہوں گا۔‘‘
اور یہ بھی جائز ہے کہ اس کے ساتھ اسم ِ ظاہر ملا ہوا آئے ،جیسے کہ ہم نے اس کی مثال بیان کی۔ اور اس کے ساتھ اسم ِ ضمیر کا آنا بھی جائز ہے ، جیسا کہ آپ کہتے ہیں: